علماء حق اور الحاد کا مقابلہ

محمد احمد ناصری

بلاشبہ علماء ہی کی جماعت ناخدا ہے جو تلاطم خیز طوفانی سمندروں میں امت کی کشتی کی ناخدائی اور رہنمائی کرتے ہیں اور بلاشک وشبہ یہی وہ جماعت ہے جن کے دل میں ابراہیم خلیل اللہ جیسی بت شکنی کی شجاعت اور ابو بکر صدیق جیسی اینقص الدين وأنا حي “ والی وبے با کی موجزن ہے ، اور اسی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک جماعت نے اس دور میں الحاد کی دارو گیر کی جس وقت تمام مذاہب اس کے مقابلے اپنے وجود ہی کو بیچ گردان رہے تھے ۔

علماء حق اور الحاد کا مقابلہ 
علماء حق اور الحاد کا مقابلہ

آئیں علماء حقہ کے سامنے الحاد کی پس پائی دیکھیں کہ کس طرح الحاد نے اپنے پنجے گاڑنا چاہے اور علماء کی جماعت نے اس کی زود کوب کی ۔ الحاد حاضی میں مرتب تھا ، نہ ہی اس کا رنگ غالب تھا اور نہ ہی اس کا کوئی زور اور دبدبہ تھا ، اسی لیے اس وقت کے علماء نے اس کے رد میں کوئی مستقل مجموعہ تیار کیا اور نہ اس کی ضرورت ہی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ امام ابو حنیفہ نے دہریوں سے مقابلہ کیا جس کے نتیجے میں آپ کی شہرت خوب ہوئی کہ آپ منکرین خدا ( ملحدین ) کو اس طرح پچھاڑتے ہیں کہ وہ دوبارہ مناظرے پر آمادہ ہونے کی تاب نہیں رکھتا ، مگر کوئی مستقل رو پر کام نہیں کیا ۔

امام ابوالحسن اشعری اور ابوالمنصور ماتریدی اسلام کے ایسے وکیل اور ترجمان تھے کہ انھوں نے باطل کی طرف سے آنے والے جملوں کی بات تو کجا ، ان کے قلعوں کی بھی قلعی کھول دی ۔ لیکن اس کے بعد جوں جوں زمانہ گزرا فلسفیت اور الحاد کا رنگ غالب آیا ، عقول ناقصہ جزئیہ کی گرم بازاری ہوئی اور نقل کی قدر و منزلت گھئی اور امام غزالی کے زمانے تک اس کی ضرورت محسوس ہونے لگی کہ ان دونوں ( عقل اور نقل ) کی موافقت و اتحاد کے واسطے کچھ آئین بتلائے جائیں ، العقل والعقل ص : ۷ )

چناں چہ انہوں نے وہ قوانین وضع کئے اور کما حقہ وضع کئے ۔ مگر چوں کہ علماء سلف کو اس کی تعیین و تفصیل کی حاجت پیش نہیں آئی تھی ، اور علماء مابعد نے امام صاحب ممدوح ( امام غزائی ) کی تشریحات پر حوالہ کر دینے کو کافی سمجھا ، اس واسطے اُن سے پہلے اور ان کے بعد اکثر ایسے ہی مہم اور متعارض اقوال عقل و نقل کے بارے میں جمع ہوتے رہے ، ( العقل والنقل ص : ۸ ) یہاں تک کہ قوم میں معروف دانش مند حضرات کی طرف سے یہ آواز اٹھائی گئی کہ قدیم علم کلام کا تعلق صرف عقائد سے ہے ، قانونی اور اخلاقی مسائل سے اس میں مطلقاً بحث نہیں کی گئی ، لیکن متکلم نہ کرتے تو اور کیا کرتے علم کلام کا مقصد ہی علم کلام تک محدود تھا اور جن چیزوں کے لیے دوسرے علوم کی حاجت تھی ، چناں چہ فن تصوف و اخلاق اور علم اسرار الدین نے اس ضرورت کو بھی رفع کیا اور اسلام کی تمام جزئیات نماز ، روزہ ، حج ، زکوۃ ، نکاح ، طلاق ، جنگ و جہاد کے مخفی اسرار و حکمتوں کو نہایت تفصیل کے ساتھ ظاہر کر دیا ۔ ( العقل والعقل از دیباچہ ) مثلام حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی اور حضرت مولانا قاسم نانوتوی و غیر ہم نے خاص کر اس کام کا بیڑا اٹھایا ۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply