قرآن کریم میں عورت کا مقام
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
اللہ رب العزت نے عورتوں کو عزت واحترام کا جومقام دیا ہے، اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے، کہ قرآن پاک کی مستقل ایک پوری سورۃ نساء ( عورت ) ہی کے نام رکھا گیاہے، اس کے علاوہ سورۃ نور، سورۃ طلاق کے بیش تر حصے بھی عورتوں ہی کے لئے مخصوص ہیں، انفرادی احوال کے ذکر کے لئے قرآن کریم میں سورۃ مریم موجود ہے، سورۃ بقرۃ، سورۃ مائدہ، الاحزاب، المجادلۃ، الممتحنۃ اور سورۃ تحریم کے ساتھ دس سے زائد سورتوں میں مختلف جگہوں پر نیک عورتوں کے حوالہ سے آیتوں کا نزول ہوا، جن میں حضرت حوا، سائرہ، ہاجرہ، زینب بنت جحش، عائشہ بنت ابو بکر، خولۃ بنت ثعلبۃ، نقضۃ الغزل، ام حبیبہ، مریم بنت عمران اور بلقیس کے اسماء خاص طور سے قابل ذکر ہیں، جن بدکردار اور نافرمان عورتوں کا ذکر قرآن میں ملتا ہے، ان میں حضرت نوح، حضرت لوط اور ابو لہب کی بیوی کو بھی نظر انداز نہں کیا جا سکتا ہے، اس طرح جن عورتوں کا ذکر قرآن کریم میں ملتا ہے ان کی تعداد سترہ تک پہونچتی ہے۔

لفظ نساء کے مختلف صیغے قرآن کریم میں مذکور ہیں، جس کے معنی عورت کے آتے ہیں، مجموعی حالات کو بتانے کے لیے یہ الفاظ زیادہ مستعمل ہیں، انفرادی ذکر ”امرأۃ“ کے لفظ سے اضافت کے ساتھ مذکور ہے، جیسے؛ امرأۃ لوط، امرأۃ عمران، امرأۃ فرعون وغیرہ، اس لفظ کی تثنیہ امرأتان آتی ہے اور جمع نسوۃ، ان الفاظ کا استعمال بھی قرآن کریم میں عورتوں کے اجتماعی، سیاسی اور عمومی حالت کے ذکر کے لئے بار بار آیا ہے، ان کے علاوہ الانثیٰ مفرد، تثنیہ اور جمع کے صیغوں کے ساتھ تیس بار، ”الأم“ اٹھائیس بار، الوالدۃ، پانچ بار، الاھل، ایک سو ستائیس بار، الزوج مختلف صیغوں کے ساتھ اکاسی مرتبہ الصاحبۃ چار بار، الحلیلۃ ایک بار جمع کے صیغے حلائل کے ساتھ البنت، 19 بار، الاخت 14/ بار آیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم نے عورت کو اجتماعی اور انفرادی طور پر کتنی اہمیت دی ہے، قرآن کریم نے تفصیل سے ان عورتوں کا ذکر کیا ہے، جنہوں نے اللہ کے احکام پر عمل کیا اور اس کے فوائد سے بہرہ ور ہوئیں، ان کے ساتھ ان عورتوں کا بھی ذکر کیاہے، جو اپنی بد اعمالیوں کی وجہ سے کیفر کردار کو پہونچیں۔
قرآن کریم نے اس دور میں جب عورتوں کی کوئی حیثیت نہیں تھی، مرد وعورت کے مساوی حقوق کا اعلان کیا، ارشاد فرمایا، ”جو شخص نیک عمل کرے، مرد ہو یا عورت باایمان ہو تو ہم اسے یقینی طور پر بہتر زندگی عطا کریں گے اور ان کے نیک عمل کا بدلہ بھی انہیں ضرور دیں گے۔“َ (النحل: 97)
ایک دوسری آیت میں ہے۔ ”بے شک مسلمان مرد اور مسلمان عورتین مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں، فرماں برداری کرنے والے مرد اور فرماں برداری کرنے والی عورتیں، راست باز مرد اور راست باز عورتیں، صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں عاجزی کرنے والے مرد اور عاجزی کرنے والی عورتیں، خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں، روزے رکھنے والے مرد اور روزے رکھنے والی عورتیں اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والیاں، بکثرت اللہ کا ذکر کرنے والے اور ذکر کرنے والیاں ان سب کے لیے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔“(الاحزاب: 35)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اجر وثواب اور جرم وسزا کے معاملہ میں عورت ومرد میں کوئی تفریق نہیں کی ہے، بلکہ مرد وعورت کو مساوی سطح پر رکھا ہے اور صنفی بنیادوں پر ان سے کوئی امتیاز نہیں برتا گیا ہے۔
اسی طرح مرد وعورت دونوں کو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت اور نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا،زنا جیسے قبیح جرم کے ارتکاب پر مرد وعورت کی سزائیں بھی یکساں رکھی گئیں، آپسی تعلق اور ضرورت کی بنیاد پر دونوں کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ھُن لِباسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّ (البقرۃ:187) اور یہاں بھی کوئی تفریق نہیں کی گئی، لڑکیوں کی پیدائش پر جوناخوش گواری ذہن میں پیدا ہونے کا رجحان کل بھی تھا وہ آج بھی ہے، اس پر سخت نکیر کی، لڑکیوں کو زندہ در گور کرنے کو قتل قرار دیا وَاِذا المَؤُدَۃُ سُئلَتْ بِاَیِّ ذَنْبٍ قُتِلَتْ اور اسے قیامت میں سزا کا موجب قرار دیا۔ (التکویر 8۔9) شادیوں میں ان کی اجازت اور رائے کا احترام ضروری قرار پایا، بغیر ان کی مرضی کے باندی تک کے نکاح کا تصور کالعدم سمجھا گیا، (فَانْکِحُوْھُنَّ بِاِذْنِ اَھْلِھِنَّ۔ نساء:25)
قرآن کریم میں والدین کے جو حقوق بیان کئے گیے اس میں بھی دونوں کو برابر رکھا گیا، (الاسراء)بلکہ بعض روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ماں کا مرتبہ باپ سے بڑھا ہوا ہے؛ کیونکہ بچوں کے مرحلہ ولادت میں جو تکلیف عورتوں نے اٹھائی ہے، مردوں کے حصے میں اس تکلیف کا کوئی حصہ نہیں آتا؛ اس لیے اس کا مرتبہ اونچا قرار دیا گیا، اور ماؤں کے قدموں کے نیچے جنت کا تصور پہلی بار اسلام نے پیش کیا، اسی طرح مردوں کے مقابلے عورتوں کو ان کے صنفی رجحان کی وجہ سے خصوصی اجازت دی گئی، آرائش وزیبائش میں انہیں کھلی چھوٹ دی گئی ان کے سولہ سنگار پر پابندی نہیں لگائی گئی، جبکہ مردوں کے لئے اسے پسندیدہ نہیں سمجھا گیا، سونے کا استعمال عورتوں کے لیے کلیۃً جائز اور مردوں کے لئے یکسرحرام قرار دیا گیا، چاندی کے استعمال میں بھی عورتوں کو آزاد چھوڑا گیا، مردوں پر شرائط کے ساتھ پابندی لگائی گئی، ریشمی کپڑوں کا استعمال مردوں کے لئے ممنوع اور عورتوں کے لیے جائز قرار دیا گیا، اس نقطہ نظر سے دیکھیں تو عورتوں کو مردوں کے مقابل خصوصی رعایت دی گئی۔
مغربی دنیا اور ہمارے تجدد پسند دانشوروں کو جہاں جہاں مرد وعورت میں تفریق نظر آتی ہے،وہ معاملہ حقوق کا نہیں بلکہ طریقہ کار اور تقسیم کار کا ہے، جس طرح ایک دفتر اور کمپنیوں کے کاموں میں تقسیم ہوتی ہے، اسی طرح شریعت نے دونوں کے کاموں کا میدان الگ الگ رکھا، عورتوں کے ذمہ تدبیر منزل یعنی خاندگی امور کی انجام دہی کا کام غالب طور پر رکھا۔ ارشاد ربانی ہے۔ وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجِ الْجَاھِلِیَّۃِ الاُلیٰ (الاحزاب: 33) مرد اپنے صنفی اعتبار سے نفقہ کے حصول اور ضروریات زندگی کی فراہمی پر مامور ہے، عورتوں کا کھانا، کپڑا اور ضروریات زندگی مردوں کے ذمہ ہے، مغرب نے یہ کیا کہ عورتیں توالد وتناسل کا کام بھی کریں اور مردوں کے شانہ بشانہ دفتروں میں کام بھی لیا جائے، گھر میں امور خانہ داری بھی دیکھیں، اس طرح مرد نے اپنے بوجھ کو عورتوں کے کاندھے پر ڈال دیا، اور ان پر ظلم کی انتہا کردی، نعرہ آزادی نسواں کا لگایا گیا اور اس نعرہ کے ذریعہ انہیں سڑکوں پر لے آیا گیا، ان کا استحصال کیا گیا، کلبوں اور قحبہ خانوں کی زینت بنا دیا گیا، انہیں پر دے سے باہر نکالا گیا اور چھوٹی بڑی مصنوعات تک پر انہیں بر ہنہ اور نیم برہنہ شکل میں ڈال دیا گیا، چونکہ پردہ مغرب اور جدید دانشوروں کے اس کام میں رکاوٹ تھا اس لیے اس پر اعتراضات کیے گیے، عورتوں کا لباس چھوٹا ہوتا گیا اور عریانی کی ساری حدوں کو پار کر گیا۔
قرآن کریم میں مردوں کو چار شادیوں کی اجازت دی گئی، لیکن عدل کی ایسی شرط لگادی گئی کہ کئی شادیوں کا رجحان مردوں میں فروغ نہیں پا سکا، فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِنْ النِّسَاءِ مَثْنیٰٰ وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ فِاِنْ خِفْتُمْ اَنْ لَا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃ(النساء: 3) اگر آپ سروے کریں تو دوفی صد لوگ بھی اس اجازت سے فائدہ نہیں اٹھاپا رہے ہیں؛ کیونکہ چند بیویوں کے درمیان انصاف کرنا آسان کام نہیں ہے، قرآن کریم نے واضح کر دیا کہ اگر انصاف نہیں کر سکتے تو ایک ہی پر اکتفا کرو، اس حکم نے لا تعداد بیویوں کے رکھنے پر پابندی لگا کر اسے چار تک محدود کر دیا، اور مرد کو اس کا پابند بنایا کہ انصاف کے ساتھ اپنی ذمہ داری نبھاؤ،یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک کو بیوی بنا کر رکھو اور بقیہ سے خفیہ شناشائی رکھو، ان سے جنسی لذت اٹھاؤ اور یوز اینڈ تھرو کی طرح ان کے ساتھ معاملہ کرو۔قرآن کریم نے عورتوں کے لئے مہر کا دینا لازم قرار دیا۔ وَاٰ تُوْ النِّسَاءَ صَدُقٰتِھِنَّ نِحْلَۃً اور نفقہ جس میں تما م ضروریات زندگی شامل ہے مردوں پر لازم کیا۔
یہیں پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن نے یہ نفقہ مرد پر اسی وقت تک رکھا ہے، جب تک زن وشوہر کا رشتہ قائم رہے، کسی وجہ سے رشتہ عمر کی کسی منزل میں بھی ٹوٹا تو شوہر پر نفقہ کی ذمہ داری نہیں رہے گی، عدالتوں میں نفقہ مطلقہ کے حوالے سے جو فیصلے آ رہے ہیں وہ قرآن کے مطابق صحیح نہیں ہیں، یہ ایسے ہی ہے جیسے کسی اجنبیہ کو آپ کہیں کہ اس کا خرچ تم اٹھاؤ، یہ عورت کی غیرت کے بھی خلاف ہے کہ جس مرد نے اسے اس لائق نہیں سمجھا کہ اپنے نکاح میں رکھے وہ اس سے مالی فائدہ اٹھائے، ایسا تو کسبیاں بھی نہیں کرتی ہیں، اس کے علاوہ اگر مطلقہ عورتوں کو گذارہ بھتہ دلایا جائے تو مرد ان کو طلاق دینے کے بجائے لٹکا کر رکھے گا، نہ حقوق ادا کرے گا اور نہ طلاق دے گا، اور یہ قرآن کریم کی نگاہ میں ظلم ہوگا۔ ارشاد ربانی ہے۔ وَلَا تَمْسِکُوْ ھُنَّ ضِرَاراً لِتَعْتَدُوْا (البقرۃ:123) قرآن کریم میں طلاق کا حق مرد کو دیا گیا ہے، کورٹ کو نہیں، عورت کو نہیں، عورت کو تو اس لیے نہیں کی ان کی جذباتیت رشتوں کے توڑنے میں عجلت کا سبب بنتی ہے، دوسرے اس رشتہ کے ٹوٹنے سے عورت کو مالی نقصان نہیں ہوتا؛ بلکہ اس کو مہر کے روپے اگر نہیں ملے ہوں تو مل جاتے ہیں، عدت کا خرچہ ملتا ہے، تو وہ بعض اعتبار سے مالی فوائد حاصل کر لیتی ہیں اور یہ سارا مالی بوجھ مرد پر آتا ہے، اس لیے طلاق کا حق مردوں کو دیا گیا، کورٹ کو اس لیے نہیں دیا گیا کہ وہ خاندان کے مسائل ومعاملات کی تفہیم میں کافی وقت لیتی ہے اور اس کے فیصلے کبھی اتنی تاخیر سے ہوتے ہیں کہ عمر یں گذر جاتی ہیں، اس لیے مطلقاًطلاق کا حق نہ عورت کو دیا گیا اور نہ عدالت کو، البتہ اگر مرد طلاق نہیں دیتا اور ظلم وجبر کے ساتھ لٹکا ئے رکھتا ہے تو عورت عدالت میں خلع کا مقدمہ کر سکتی ہے، فسخ نکاح کے لئے قاضی سے استغاثہ کر سکتی ہے اور قاضی ان امور میں فیصلہ کرکے ہو رہے ظلم کو ختم کر سکتا ہے، کیونکہ دفع ضرر قاضی کی ذمہ داری ہے۔
قرآن کریم نے ترکہ میں عورتوں کے لئے مردوں کے مقابلے نصف حصہ رکھا ہے، لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ (النساء:11) اس کی وجہ یہ ہے کہ عورتوں پر کوئی مالی بوجھ خاندان کا نہیں ہے، اس کے سارے اخراجات شوہر کے ذمہ ہیں، اس کے بچوں کے اخراجات بھی شوہر پر ہیں، پھر اس کو شوہر کی طرف سے بھی ترکہ ملتا ہے، اور میکہ میں والدین وغیرہ کے ترکہ سے بھی وہ حصہ پاتی ہے، جبکہ مرد کو صرف اس کے خاندان سے ترکہ ملتا ہے، اور مالی بوجھ اس پرکثیر ہے اس لیے شریعت نے مرد وعورت کے ترکہ میں حصوں میں تفاوت رکھا تاکہ خاندان کا مالی نظام معتدل طور پر قائم رہے اور افراط وتفریط سے بچا رہے۔
قرآن کریم میں اللہ رب العزت میراث کے علاوہ، ہبہ، وصیت، مہر اور خودکسب معاش سے حاصل مالیات کی ملکیت عورتوں کو دیا ہے اور ان کے مالی حقوق کو تسلیم کیا ہے، تجارت کاشتکاری، باغبانی صنعت وحرفت چند شرائط کے ساتھ ملازمت، مکان اور دوسری اشیاء کے ذریعہ کرایہ کی حصولیابی اور سرمایہ کے تمام حقوق تسلیم کیا ہے۔ ارشاد خدا وندی ہے: لَلرِّجاَلِ َنصِیبٌ مِمَّا اکْتَسَبُوْ وَلِلنِّسَاءِ نَصِیْبٌ مِمَّااکْتَسَبْنَ وَاسٔلُوْ لِلّٰہِ ِمنْ فَضْلِہٖ (سورۃ النساء: 32)
اس تفصیل کا حاصل یہ ہے کہ قرآن کریم میں عورتوں کا جو مقام ہے وہ بیش تر معاملات میں مردوں کے مساوی ہے، جہاں تفاوت نظر آتا ہے وہ کہیں توصنفی تقاضوں کی وجہ سے ہے اور کہیں ذمہ داریوں کی وجہ سے، اللہ نے صلاحیتوں کی بنیاد پر ذمہ داریاں تقسیم کی ہیں اور ذمہ داریوں کے نتیجہ میں حقوق متعین کئے ہیں اس حقیقت سے دیکھا جائے توپورے قرآن کریم میں عورتوں کے حقوق پر خصوصی توجہ دی گئی ہے اور اس معاملہ میں دنیا کا کوئی مذہب اسلام کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔