لکھنؤ : گنجینۂ تہذیب کا طلسم

پروفیسر غضنفر علی

لکھنؤ دیسی لفظ ہے۔ اس لفظ کی درمیانی آواز "کھ”خالص ہندوستانی ہے مگر دوسرے ناموں کی طرح یہ بھی ہوائے تغیر کی زد پر ہے۔ کچھ ناموں سے کھنٌس کی منطق تو سمجھ میں آتی ہے کہ ان کی بعض آوازیں پردۂ سماعت پر ہتھوڑے مارتی ہیں ۔وں پر گراں گزرتی ہیں۔ ان کے لب و لہجے اور صوت وصدا سے کچھ غیریت کی بو بھی نکلتی ہے۔ حالاں کہ بوئے غیریت اور غرابت کے باوجود زیادہ تر سماعتیں اس طرح کے تغیر و تبدل سے خوش نہیں ہوتیں۔ اگر ناموں میں کسی طرح کی تبدیلی کے لیے سیکرٹ بیلٹ کے ذریعے رائے مانگی جائے تو زیادہ ترلوگوں کے ووٹ اس تغیرانہ عمل کے حق میں پڑنے کے بجائے مخالف ڈبے میں پڑیں گے۔ اس لیے کہ جب سماعتیں کسی سے مانوس ہو جاتی ہیں تو اس کی جگہ کسی نامانوس صورت حال کو قبول کرنا پسند نہیں کرتیں خواہ بدلی ہوئی صورتحال بہتر ہی کیوں نہ ہو۔

لکھنؤ : گنجینۂ تہذیب کا طلسم 
لکھنؤ : گنجینۂ تہذیب کا طلسم

غیریت اور غرابت کی بو والے بدلاؤ کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے مگر اس لکھنؤ کی تبدیلی کی سوچ یا بننے والے منصوبے کا سبب سمجھ میں نہیں آتا۔ اس لیے کہ اس دیار کے زیادہ تر باشندے اپنے کو لکھنوی کہلانے پر فخر محسوس کرتے ہیں اور اپنے لکھنوا انداز اور لکھنوی بود و باس پر سر بھی دھنتے ہیں کہ یہ لفظ انھیں کچھ اسپیشل محسوس کراتا ہے ۔ اوروں سے الگ کرتا ہے۔ انھیں ممتاز و منفرد اور مرکز, نگاہ بناتا ہے۔ اہلِ لکھنؤ کیا پوری دنیا اس نام کو توجہ سے سنتی ہے اور اس میں رچی بسی تہذیب پر سر دھنتی ہے

کہیں اس تغیری مہم کاسبب یہ تو نہیں ہے کہ اس شہر کی وادی میں خزانے بہت زیادہ ہیں۔ جدھر دیکھیے گنج ہی گنج نظر آتا ہے ۔ ایک طرف حضرت گنج ہے تو دوسری طرف نشاط گنج ۔ تیسری جانب حسین گنج تو چوتھی اور مولوی گنج۔ مفتی گنج ۔ بشیرت گنج ۔ کہیں پر ڈالی گنج ہے تو کہیں پر گولا گنج،۔ اور یہ گنج محض بلدیائی گنج نہیں ہیں بلکہ گنجینہء معانیِ مخصوص کا طلسم بھی ہیں ۔ یہ ایسا طلسم ہے کہ ایک بڑی آبادی پر پردہ ڈال دیتا ہے بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ اس آبادی کے چہرے پر بھی دوسری آبادی کا چہرہ چسپاں کر دیتا ہے۔ اور اس طرح صرف ایک لفظ ایک بہت بڑی آبادی کے وجود کو غائب کر دیتا ہے۔ ٹھہریے، یہاں غائب لفظ غالباًمناسب نہیں ہے۔ یہاں لفظ غائب کے

ممکن ہے ایک سبب یہاں کے ہرے بھرے باغات بھی ہوں کہ اس بلدیے میں باغ بھی بہت ہیں۔ آنکھیں اٹھائیے تو چہار باغ سے لے کر نشاط باغ، قیصر باغ ، ڈالی باغ ، تک باغ ہی باغ ہیں۔ ان باغوں سے جو رنگ ابھرتا ہے وہ دیدوں میں ایسا منظر بناتا ہے جو نگاہوں کو بھاتا تو ہے مگر کچھ پتلیوں میں چبھتا بھی ہے۔ ان سے ایسی خوشبو نکلتی ہے جو خوش گوار ہونے کے باوجود کچھ نفوس کی سانسوں میں گھٹن بھی پیدا کرتی ہے ۔ اگرچہ ان باغوں سے چمپا چمیلی، سورج مکھی، گیندا، رات کی رانی کی خوشبوئیں بھی نکلتی ہیں مگر دور کے کچھ نتھنوں میں شاید صرف سوسن،نسریں نرگس،نسترن،لالہ، وغیرہ کی خوشبوئیں ہی پہنچ پاتی ہیں ۔

ایک سبب وہ آبادیاں ہیں جو ایک خاص طرح کے لسانی ناموں سے مختلف خطوں میں آباد ہیں ۔جیسے : امین آباد،نظیرآباد ، حسین آباد, وزیرآباد ,یہآباد خطے بتاتے ہیں کہ یہاں صرف ایک طرح کی آبادیاں موجود ہیں جبکہ اس کے دامن میں گومتی نگر ،مہا نگر,نرہی،ٹھاکر گنج وغیرہ بھی بسے ہوئے ہیں ۔

شاید ایک وجہ یہاں کا باڑا بھی ہو، چھوٹا امام باڑا،بڑا امام باڑا نجف کا امام باڑا غفراں مآب کا امام باڑا۔ ویسے تو باڑا بھی خالص انڈک لفظ ہے کہ اس لفظ میں ڑ کی آواز شامل ہے جو نہ عرب میں سنائی دیتی ہے اور نہ ہی ایران میں۔یہ آواز تو ہندوستان کی فضا کی پروردہ ہے مگر امام والے اس باڑے کے منار اتنے اونچے ہیں کہ ان پر ساگروں والے ممالک میں طلوع ہونے والے سورج کا عکس صاف صاف دکھائی دیتا ہے۔

اور ان محل نماباڑوں کی دیواروں سے جو کڑی مونچھوں والی بڑی بڑی تصویریں ابھرتی ہیں اور ان تصویروں کے پس منظروں سے جو مخصوص خط و خال اور رنگ و نور والے منظر جھلملاتے ہیں اور ان منظروں میں جو ہئیولے لہراتے ہیں وہ بھی اس تصورِ تغیرات کا سبب بنتے ہیں ۔

ممکن ہے اس کی ایک وجہ لفظ دولہ بھی ہو جس سے سلطنتیں اور حکومتیں جڑی ہوئی ہیں اور جن سلطنتوں اور حکومتوں کے ڈانڈے ایسے ناموں سے جڑتے ہیں جن کی یادیں اس لکھنؤ میں رچ بس گئی ہیں۔

تبدل کا خیال کیا پتا اس لیے بھی رہ رہ کر آتا ہو۔کہ یہ لفظ گنگا جمنی تہذیب کا شاید سب سے بڑا سمبل بن گیا ہے ۔یہ بھی عجیب بات ہے کہ یہ دونوں ندیاں یعنی گنگا اور چمنا بہتی تو ہیں آلہ آباد میں مگر ان کی موجوں کا شور سنائی دیتا ہے یہاں اودھ نگری میں ۔ دونوں دریاؤں کے رنگ پھوٹتے تو ہیں پریاگ کے سنگم تٹ سے مگر جھمکتے ہیں گومتی ندی والے شہر میں ۔ایک کی سفیدی میں دوسرے کا سبز رنگ گھلتا ہےتو دلوں میں مسرتوں کے پھول کھلا دیتا ہے ۔ کدورتوں کی سیاہیوں کو ہٹا کر ان کی جگہ سفیدیوں کے ہرے بھرے بچھونے بچھا دیتا ہے ۔ گنگا جمنی تہذیب کا یہ پھولدار بچھونا ہے تو بہت نرم ملائم اور خوبصورت مگر یہ کچھ جسموں میں کانٹوں کی طرح چھبتا بھی ہے ۔

اس گنگا جمنی تہذیب کو چمکانے اور اس کی شعاعوں کو دور دور تک پھیلانے میں ایک ایسی زبان کے لب و لہجے کا ہاتھ بھی رہا ہے جس نے تحریر وں میں اخوت و یگانگت اور پیار ومحبت کا ایسا سر بھر دیا کہ سارے پالے اپنی اپنی حدیں توڑ کر ایک دوسرے سے جا ملے ، پنڈت رتن ناتھ سرشار ہو گئے ۔پنڈت دیا شنکر نسیم بن گئے ۔ ایک پنڈت نے اس زبان میں ایسی داستان بیان کی کہ دور دور تک فضاؤں کو گل و گلزار بنا دیا اور دوسرے پنڈت نے ایسا قصہ چھیڑا کہ گلی گلی اور کوچے کوچے میں فسانہء آزاد گونجنے لگا ۔ اوپر سے منشی نولکشور نے ایسا چھاپا خانہ کھول دیا کہ دانشوری دانشوروں کے سینے سے نکل صفحہ ء قرطاس پر آ گئی اور صفحۂ قرطاس پر کیا آئی کہ ایک عالم کے ذہن و دل روشن ہو گئے ۔اردو زبان ایسے ہاتھوں میں آگئی کہ سیاہ حروفِ سفید پھول اگلنے لگے ۔ان سفید پھولوں کی سفیدی نے سارے داغ دھبے مٹا دیے۔ گنگا جمنی تہذیب کو اور روشن کر دیا ۔

اس زبانِ اردو نے وہ ہؤا اٹھائی کہ وادیِ اودھ میں چاروں طرف باغات لہلہا اٹھے ۔ خوشبوئیں ایسی پھیلیں اور گلوں سے رنگ و نور ایسے جھمکے کہ ویرانے تک آباد ہو گئے ۔ لطف و انبساط کے گنج ہائے گراں مایہ کھل گئے ۔ان سب نے مل کر اودھ کو لکھنؤ بنا دیا ۔ایک ایسا نام کہ جس کے آتے ہی لبوں سے پھول جھڑنے لگتے ہیں ۔جسے سنتے ہی سماعتوں میں سر گونجنے لگتے ہیں ۔بصارتوں میں منظر رقص کرنے لگتے ہیں ۔ایک ایسا لفظ جو گنجینہء تہذیب کا طلسم ہے ۔کارگہ , شیشہ گری ہے ۔ آماج گاہِ بازی گری ہے۔ نواح, نوحہ گری ہے ۔ شہرِمرصع سازیِ شعر و سخن ہے ۔ کارخانہء چکن کاری ہے

فضائے گلزار ِ نسیم ہے ۔ وادیِ فردوسِ بریں ہے ۔

یہ لفظ ایک خیالِ جاں فزا ہے۔ ایک خوابِ خوشنما ہے۔ ایک تصورِ دلکشا یے ۔

اس سے بہت کچھ جڑا ہوا ہے۔ اس میں بہت کچھ نہاں ہے اور اس سے بہت کچھ عیاں ہے۔ نہاں اور عیاں دونوں اشیا۔اتنی پرکشش ہیں کہ کچھ نگاہوں میں مسلسل چبھتی رہتی ہیں۔ اور اس چبھن کو دورکرنے کی منشا سے ہی شاید نام کو بدل دینے کا خیال ذہن میں کوندتا رہتا ہے۔

نام بدلنے کی کارفرمائی کے پیچھے جو نیت جھلماتی ہے اسے دیکھ کر یہ لگتا ہے کہ اگر بدلا تو اس شہر کا نام ہی نہیں بدلے گا بلکہ اس بات کا بھی اندیشہ ہے کہ چہار باغ کی عمارتوں کے گنبدوں کی گولائیاں بھی گول نہ ہو جائیں گی۔ کرائس چرچ۔ اور کتھیڈرل کے مناروں کی اونچائیاں بھی جھک نہ جائیں گی۔ لامارٹ اور لاما ٹینیئر کے درو دیوار کا رنگ بھی بدل نہ جائے ۔ ان کی فضاؤں میں گونجنے والے آہنگ میں کوئی اور سُر نہ سما جائے۔ ندوے کی ندائے بلند پرواز,چوک,امین آباد,مولوی گنج,قیصر گنج نشاط گنچ,وغرہ کے گلی کوچوں میں گونجنے والی صداۓ دل نواز, مجلسوں سے نکلنے والا سوزِ سحر ساز اور ادبی محفلوں میں گونجنے دل نشیں آواز بھی کہیں دم نہ سادھ لیں۔ اور امراو جان اداکی بچی کچھی جان بھی نہ نکل جائے۔,

میں ڈرتا ہوں کہ اگر یہ لفظ مٹا تو حرف و صوت کے ساتھ گنجینہء معانی کا طلسم بھی ٹوٹ کر بکھر جائے گا ۔

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare