لکھنو كی سیر
(قسط اول)
ڈاكٹر عبدالملك رسولپوری
ہندوستانی ریلوے كی ٹرین بہار سمپرك كرانتی كے اے ٹو كوچ میں دروازے پر كھڑے ہوئے اترنے كے لیے قدم آگے بڑھ ہی رہے تھے كہ ایك مسافر نے پیچھے سے مسكراتے ہوئے كہا ”مسكرائیے كہ آپ لكھنؤ پہنچ آئے ہیں“ ہم نے پیچھے مڑے بغیر برجستہ كہا كہ عیش كیجئے كہ آپ عیش باغ میں ہیں۔ چوں كہ ٹرین عیش باغ پہنچی تھی جو كہ چار باغ كی بہ نسبت قدرے چھوٹا اسٹیشن ہے؛ البتہ لكھنؤ میں ٹرین كا اسٹاپ اس اسٹیشن پر ہے یا پھر بادشاہ نگر۔ ہمارے اس برجستہ جملے كی كئی مسافرین نے ہم نوائی كی كہ عیش تو لكھنؤ ہی میں ہے دہلی تو بس كام كی جگہ ہے۔ ہم نے كہا كہ باغوں كا شہر ہے جس كا لاحقہ بہار ہےاور بہار كا مطلب زندگی اور عیش ہی ہوتا ہے۔ یوں ہم سب مسكراتے ہوئے ٹرین سے اترے اور پھر اپنی اپنی منزل كی طرف رواں دواں ہوگئے ۔ہم بھی اسٹیشن سے باہر نكلے جہاں ہمارے بزرگوار محترم مولانا مطیع الحق انظر صاحب اپنی چار پہیوں والی امیروں كی اسكوٹی یعنی بیگن آر لیے ہوئے ہمارا انتظار كرفرمارہے تھے۔ سلام ہوادعا ہوئی ہم گاڑی میں بیٹھے انھوں نے سفر كی خیریت دریافت كی اور چل پڑے۔

عیش باغ كی وجہ سےذكر ہواكہ جمعیۃ علماء صوبہ اتر پردیش كا عارضی دفتر بھی اسی محلے میں واقع ہے انظر بھائی نے بزبان حیرت كہا كہ آپ نے ابھی تك دفتر نہیں دیكھا ہم نے كہا ہم تو مقیم ہیں ہمارے حصے كا سارا سفر برادرمكرم مولانا احمد عبداللہ صاحب نے لے ركھا ہے۔ یوں باتیں كرتے ہوئے ہم عیش باغ كے قبرستان پہنچ گئے جہاں بامعنی ویرانی چھائی ہوئی تھی آگے بڑھے تو ایك حصے میں شامیانے لگے ہوئے تھے محسوس ہورہا تھا كہ رات كی كسی ساعت شہنائی بجے گی، انھیں شامیانوں كے پیچھے ایك كمرے پر كیمپ آفس جمعیۃ علماء اترپردیش كا فلیكس معلق نظر آیا ، اس دوران انظر بھائی نے مولانا معراج صاحب سے فون پر بات كی ہوگی انھوں نے كسی مولانا راشد صاحب كا حوالہ دیا كہ آج كل اس خرابے كو وہی آباد كئے ہوئے ہیں۔ دروازے پر آویزاں ایك پرچی پر ان كا رابطہ نمبر درج تھا۔ ہم نے كہا كہ جس طرح مسلمانوں كو مذہبی اور ثقافتی لحاظ سے زیر كرنے كے لیے سركارمتحرك ہے اس دفتر كو بھی ان سازشوں اور كاوشوں كے دفاع كے لیے بعینہ اسی طرح متحرك ہونا چاہئے تھا ؛لیكن جب جماعتیں نظریات سے ہٹ كر محض رفاہی اور خیراتی ادارے بن جاتی ہیں تو دفتروں میں اسی طرح كی ویرانی نظر آتی ہے، جب كوئی سماوی یا انسانی آفت آئے گی تو جماعتوں كے یہ دفاتر ان شاء اللہ آباد ہوجائیں گے۔
وہاں سے نكلے تو ہم جامعۃ المومنات دوبگہ كی طر ف روانہ ہوگئے انظر بھائی اس جامعہ كے منتظم ہیں جامعہ سے ملحق ہی ان كا اپنا مكان ہے ۔ آبائی طور پر انظر بھائی كا تعلق لكھیم پور ضلع كے مشہور قصبے محمدی سے ہے، ان كے دادا جان حضرت مولانا رمضان الحق صدیقیؒ نہایت مشاق اور نباض حكیم اور فاضل دیوبند تھے ۔شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنی كے شاگرد رشید تھے۔ دارالعلوم كے ذیلی ادارے طبیہ كالج كے منصب نظارت پر فائز تھے كہ حضرت شیخ الاسلامؒ نے گزارش كی كہ اپنے علاقے میں واپس جائیں اور دینی تعلیم كا نظم ونسق كریں ؛چناں چہ 1950ء میں اپنے وطن قصبہ محمدی ہی میں ادارہ محمودیہ نام كاایك مدرسہ قائم كیا، جس كی بنیاد خود حضرت شیخ الاسلام ؒ نے ركھی اور لكھیم پور سے ملحق دو چار ضلعوں میں جو بھی دینی بیداری نظر آتی ہے وہ سب اسی ادارے كا فیض ہے۔والد ماجد حضرت مولانا نظام الحقؒ بھی حكمت كے ساتھ نہایت اعلی تدریسی صلاحیتوں كے مالك تھے ،راقم كو بھی حضرت سے تلمذ كا شرف حاصل ہے۔ انظر بھائی انھیں كے فرزند ارجمند ہیں ، ابتداسے درجہ پنجم تك كی تعلیم وہیں اپنے آبائی مدرسے میں حاصل كی تھی بعد ازاں دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے داخلہ نہ ہوسكا تو مرادآباد كے مشہور مدرسے جامعہ قاسمیہ مدرسہ شاہی میں داخل ہوگئے اور ایك سال وہاں فیض حاصل كیا ،آئندہ سال دارالعلوم میں داخلہ ہوگیاتو فضیلت كی تعلیم وہیں حاصل كی۔ اس كے بعد صلاحیتوں میں مزید جلا اور نكھار پیدا كرنے كےلیے دارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخلہ لیا اور وہاں كے ممتاز علماء سے فیض حاصل كیا ، ساتھ ہی لكھنؤ یونیورسٹی سے عربی ادبیات میں ایم اے بھی كیا ہے۔ یوں تعمیر شخصیت كے جملہ مراحل طے كركے اپنی ذات كوشجر طوبی بنا یا۔ شرافت موروثی طور پر حاصل ہوئی تھی ، علمی لیاقت ملك كے مایہ ناز اداروں میں پروان چڑھی اور سماجی سوجھ بوجھ جامعہ ہمدرد اور لكھنؤ یونیورسٹی كے ساتھ عملی جد وجہد سے حاصل ہوئی، اس طرح آج وہ ایك مسلم اور مكمل شخص كے طور پر جامعہ المؤمنات كی نظامت كو بحسن وخوبی انجام دے رہے ہیں۔ خانوادے كا ایك وصف میزبانی بھی ہے ؛چناں چہ ان میں یہ جذبہ بھی ہمہ طور موج زن رہتا ہے قاسمی وندوی ومومناتی اور ساتھ میں محمدی ورسولپوری تمام علمائے كرام كی خدمت اور میزبانی چوڑے سینے كے ساتھ كرتے ہیں اور لوگوں كا دل جیت لیتے ہیں، انظر بھائی مہماں نواز، علماء نواز ہونے كے ساتھ ساتھ خورد نواز بھی ہیں یہی وہ جذبہ نوازش تھا كہ وہ ہم جیسے شخص بے مایہ كے لیے ہمہ تن خادم بنے ہوئے تھے۔ شام دس بجے سے اگلی شام دس بجے تك اپنے ضروری كاموں كو فون پر نپٹاتے ہوئے وہ ہمارے ساتھ ہی رہے ،لكھنؤ كے متعدد مدرسوں كی سیر كرائی اور لوگوں سے ملاقاتیں كروائیں۔
ماضی بعید میں جائیں تو محمدی كا یہ صدیقی خانوادہ صوبہ ہریانہ كے قصبہ رہتك سے ہجرت كركے لكھنؤ كے راستے محمدی پہنچاتھا اور ہمارے خاندان كے اكابر بھی ہریانہ ہی كے میوات سے سید سالار كی معیت میں رسول پرپہنچے اور وہیں آباد ہورہے تھے۔ دونوں خانوادوں میں یہ علاقائی نسبت بس ایك اتفاق ہے ورنہ ہمارے رشتے محض دینی نسبتوں پر قائم ہیں وہ معلم رہے اور ہم طالب علم۔ ہمارے والد ماجد حكیم رمضان الحق ؒ كے خوشہ چینوں میں سے تھے اور ہم سب بھائیوں نے بھی انھیں كے تعمیر كردہ مدرسے ادارہ محمویہ سے فیض حاصل كیا۔ بس اِن احباب كی اثر انگیز اور ہم لوگوں كی اثر پذیری كی وجہ سے یہ رشتے مضبوط ہوتے گئے، جس كی وجہ سے مولانا مطیع الحق انظر قاسمی وندوی صاحب ہمارے لیے انظر بھائی ہوگئے اور اب نہ چاہتے ہوئے بھی زبان پر بس یہی نام آتا ہے۔
انظر بھائی كی بڑی ہمشیرہ كی شادی لكھنؤ میں مولانا رضوان صاحب ندوی ؒ سے ہوئی تھی۔مولانا بھی گو نا گوں صلاحیتوں كے مالك ندوہ كے ممتاز اورمایہ ناز استاذ تھے۔ تعلیم نسواں كے تعلق سے نہایت متفكر اور متحرك تھے۔انھیں كی كاوشوں سے جامعۃ المؤمنات كا وجود 1993ء میں منصہ شہودپر ظاہر ہوا اور انھیں كی عملی جد وجہد اور سعی پیہم سے جامعہ كے لیے ترقی كے راستے ہموار ہوئے جن پر جامعہ نے سرپٹ دوڑ لگائی اور اپنے ہم عمر دیگر اداروں سے آگے نكلتا اور مسلسل ترقی كرتا گیا حتی كہ اس كا شمار موجودہ وقت میں ملك كے ممتاز اداروں میں ہونے لگا اور پھر اچانك ایك روز مولانا كا چھوٹاسا ایكسیڈینٹ ہواجو خانوادےجامعہ اور اہل جامعہ كے لیے بڑے درد كا باعث بن گیا ، مولانا طبعی عمر سے پہلے ہی اللہ كو پیارے ہوگئے۔ اللہ رب العزت ان كو غریق رحمت كریں۔ لیكن مولانا كی حوصلہ مند اہلیہ اور دیگر احباب كی روشن دماغی اور جہد مسلسل سے جامعہ كی فیض رسانی میں كوئی كمی نہیں آئی آج بھی اسی رفتار سے ترقی كے راستوں پر گامزن نظر آتا ہے۔
بات كہیں سے كہاں پہنچ گئی ہم تو ابھی اسٹیشن ہی سے نكلے تھے انظر بھائی راستے كی تمام تاریخی عمارتوں اور پاركوں پر تاریخی تبصرے كرتے رہے ،سفر شہر كے كوچوں ،گلیوں اور چوباروں سے سے آگأہ شخص كی معیت میں ہو تو سفر میں علمیت پیدا ہوجاتی ہے تہذیب كے ساتھ شہر ی تمدن سے بھی آگاہی ہوتی رہتی ہے۔ چناں چہ حسین آباد امام باڑے ،بھول بھلیوں ، میڈیكل كالج اور ٹیلی والی مسجد كی تاریخ پر گفتگو ہوتی رہی ، حسین آباد میں گزرتے ہوئے ایسا محسوس ہوا كہ وہاں ایك پرانی دہلی جنم لے رہی ہے ۔ گیٹ كے اندركشادہ راستوں كے دونوں طرف طرح طرح كےلذیذ پكوان نظر آرہے تھے ، سمجھو كہ دہلی چھ كا دوسرا نظارہ تھا۔ شام كا وقت تھا تو رونق بھی خوب تھی ، گاڑی خود ہی لذیذ پكوانوں كی خوشبو سونگھتے ہوئے خراماں خراماں چل رہی تھی رش ہی اتنا تھا اسپیڈ كہاں سے آتی ۔ ہمارے ذہن میں ایك فكرہ گونج رہاتھا كہ ملك كے حالات كتنے پیچیدہ اور تكلیف دہ ہوتے جارہے ہیں لیكن ان بازاروں كی رونق جوں كہ توں برقرار كیا بلكہ بڑھتی ہی جارہی ہے،كہیں مدرسے منہدم كئے جارہے ہیں اور كہیں مسجدیں، كہیں لیڈران كا انكاؤنٹر ہورہا تو كہیں گھروں كے نقشے تلاشے جارہے ہیں ،ان سب كے باوجود ملت اسلامیہ كے كانوں پر نہ جوں رینگ رہی ہے اور نہ ہی وہ انگڑائی لے رہی ہے ۔ اس قوم كو بیدار كرنے كے كا ایك ہی طریقہ نظر آرہا تھا كہ كبابوں پر پابندی لگادی جائے ہوسكتا ہے كہ اس محرومی كی وجہ سے یہ قوم احتجاج بن كر كہیں كھڑی ہوجائے۔
خیر حسین آباد سے نكلتے ہوئے ہم لوگ دوبگھے كی طرف بڑھتے جارہے تھے ۔ ہمار ا تجزیاتی ذہن بھی مصروف تھا جو یہ سوچ رہا تھا كہ لكھنؤ جو عالم میں مشہور تاریخی اور ادبی حیثیت كا حامل ایك قدیم شہر ہے جس كے محلے آباد اور باغ سے موسوم ہواكرتے تھے ایسی كیا مصیبت آئی كہ اس شہر كا تمدن اندھے كی چوكی سے ٹیڑھی پلیا میں جا گرا، دیر تك سوچنے كے بعد جب كوئی معقول وجہ نظر نہیں آ ئی تو شی موہوم پر نوحہ كرنے كے بجائے دستیاب وسائل سے محظوظ ہونے كے نظریے كو پیش نظر ركھ كر ہم نے اپنے ذہن كو یہ كہتے ہوئے پھسلانے كی كوشش كی كہ یہ دونوں نام محبوب كے رخسار كےسیاہ تل ہیں ، تابانی كے لیے ضروری ہوتا ہےكہ عنابی سطح پر ایك دو سیاہ نقطے ہوں۔ لیكن حقیقت تو یہی ہے كہ جوں جوں شہركا دائرہ بڑھ رہا ہے اور دور دراز سے آ آكرلوگ لكھنوی بن رہے ہیں لكھنویت بھی كہیں گم ہوتی جارہی ہے۔
ہما را ذہن انھیں خیالوں میں غرقاب تھا كہ گاڑی منزل مقصود پر پہنچ گئی ، صدیقی كاشانہ سامنے تھا ،یوسف میاں سرو قد استقبال میں كھڑے ہوئے تھے۔ سلام مصافحہ كے بعدكمرے میں داخل ہوئےتو دسترخوان لگا ہوا اور سجا ہوا تھا مزید پكوان بھی لائے جارہے تھے۔ تاخیر كافی ہوچكی تھی اس لیے یہی مناسب سمجھا گیا كہ پہلے پیٹ كے تقاضے پورے كر لیے جائیں باقی گپ شپ بعد كے لیے اٹھا ركھی جائے۔ دستر خوان اہتمام سے سجایا گیا تھا، كھانے بھی عمدہ بنائے گئے تھے شاید كسی نے غلط خبر دیدی تھی كہ ہم كھانےكے بہت شوقین ہیں یا شاید بھابھی جان كو آج كوئی مصروفیت نہیں رہی ہوگی اور یا تازہ و پرانی دونوں بہوؤں كی مہربانی رہی ہوگی كہ پكوانوں میں خاصا تنوع اختیار كیا گیا تھا۔ خیر ہم نے اپنی قسمت كے صدقے اتارے اور مرغوب كھانے كے بعد خربوزے كھائے ، پسندیدہ آئس كریم آئی اس كے بھی مزے لیے۔ اس كے بعد انظر بھائی نے چہل قدمی كے لیے كاشانہ صدیقی كا دورہ كرایا ساتھ ہی چھت سے جامعۃ المومنات كا نظارہ كرایا اور تمام عمارتوں كے اسماء ، تعمیری ساخت اور استعمال بھی بتلائے۔ چاروں طرف لائٹیں روشن تھیں ،اچھا منظر تھا ،بچیاں ادھر ادھر آجا رہی تھیں لیكن دوری كی وجہ سے بس ہیولے نظر آرہے تھے ۔
ہم لوگ چھت سے اتر ے تو جائے قیام چھ نمبر روم میں پہنچے ۔ كانوں میں چھ نمبر كی آواز جب بھی گونجتی ہے تو اولین وحلے میں تبلیغی جماعت كے چھ نمبر كی طرف ذہن جاتا ہے لیكن یہی آواز اگر جامعۃ المؤمنات كے كیمپس میں كانوں میں پڑے تو اس كا مطلب مہمان خانے كا چار بیڈ والا چھ نمبر روم ہے۔ بارہا اس كمرے كاذكر خیر و ذكر شر سنا تھا ، كبھی استاذ محترم حضرت مولانا مجید اللہ صاحب كے حوالے سے كبھی چھوٹے عالم صاحب مولانا اكرم صاحب كے حوالے سے ، خوش قسمتی سے وہ سنا ہوا ذكر آنكھوں كا مشاہدہ بن گیا اور اس چھ نمبر سے ہماری بھی آشنائی ہوگئی۔ قرآن پاك میں اقرأ كی بہ نسبت سیروا فی الأرض كا حكم زیادہ دیا گیا ہے كیوں كہ اس سے مشاہداتی علم حاصل ہوتا ہے اور شنیدہ كے بود مانند دیدہ۔ كمرے میں پہنچ كر ابھی عشاء كی نماز سے فارغ ہوئے تھے كہ انظر بھائی سبز چائے لے آئے اور پھر مختلف موضوعات پرطویل گفتگو كا دور شروع ہوا جو تقریبا دو بجے شب میں انتہا كو پہنچا۔ سوئے تو سفر كی وجہ سے نیند گہری ہوگئی اور گہری نیند میں خواب بھی گہرے ہی آتے ہیں جن كا اثر دیر تك باقی رہتا ہے صبح ہوئی تو ……………….. وللحدیث صلۃ
(جاری)