مثبت سوچ
مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
انسانی زندگی میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے، مختلف قسم کے واقعات وحوادثات ذہن ودماغ پر اثر انداز ہوتے ہیں، ایسے موقع سے ذہن میں دو قسم کے خیالات پیدا ہوتے ہیں، ایک اس واقعہ کا منفی پہلو ہوتا ہے اور ذہن عموماً ادھرہی منتقل ہوتا ہے، اس منفی سوچ اور منفی اثرات سے انسان کے اندر مایوسی پیدا ہوتی ہے، کام کرنے کا جذبہ سرد پڑ جاتا ہے اور اس کا بہت سارا وقت یہ سوچتے ہوئے گذر جاتا ہے کہ ایساکیوں ہوا؟ یہ معاملہ تو میرے خلاف چلا گیا ، اس کی وجہ سے میری پریشانیاں بڑھیں، سوچنے کا دوسرا طریقہ اس واقعہ کا مثبت پہلو ہے، اس پہلو تک ذہن کی رسائی آدمی کو مفلوج نہیں کرتی بلکہ اس کے قوت عمل کو مہمیز کرتی ہے، اور بسا اوقات وہ ایسا کر گذرتا ہے ، جس کی توقع عام حالات میں اس سے نہیں لگائی جا تی ۔
ابھی حال میں مطالعہ میں ایک صاحب کا واقعہ آیا ، وہ سال کے آخری دن پورے سال کی حصولیابیوں کا جائزہ لے رہے تھے، جائزہ کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہونچے کہ یہ سال میرے لیے انتہائی بُراتھا، کیوں کہ انہیں ایک آپریشن کے نتیجے میں کئی ماہ بستر سے لگا رہنا پڑا تھا ، ساٹھ سال کی عمر ہو جانے کی وجہ سے وہ اپنی پسندیدہ ملازمت سے سبکدوش ہوچکے ، اسی سال ان کے والد اسی(۸۰) سال کی عمر میںراہئی آخرت ہو گیے ایک حادثہ میں بیٹا ایسا معذور ہوا کہ کئی ماہ اسے پلاسٹر کراکربستر پر پڑے رہنا پڑا، اس بیماری کی وجہ سے وہ امتحان کی بہتر تیاری نہیں کر سکا ، اور فیل ہو گیا ، ظاہر ہے اس سے بُرا سال اور کیا ہو سکتا ہے، اس منفی سوچ کے نتیجے میں وہ ذہنی اور دماغی طور پر پریشان رہنے لگے، لیکن جب ان کی رفیقہ حیات نے انہیں واقعات کا جائزہ لیا تو اس کا احساس تھا کہ یہ سال ہر اعتبار سے اچھا رہا ، اس لیے کہ برسوں سے پتّے کے درد سے پریشان میرے خاوند کو درد سے نجات مل گئی ،ا نہوں نے صحت وسلامتی کے ساتھ اپنی مدت ملازمت پوری کرلی اب وہ دفتری مصروفیات سے آزاد ہونے کی وجہ سے گھریلو معاملات پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں ، مکمل یکسوئی کے ساتھ لکھنے پڑھنے میں ان کا وقت لگ رہا ہے ، اس کا احساس تھا کہ میرے سسر لمبی عمر پا کر بغیر کسی پر بوجھ بنے اور غیر معمولی تکلیف اٹھائے دنیا سے رخصت ہوئے، میرا بیٹا ایک حادثہ میں بال بال بچ گیا،گاڑی جس طرح تباہ ہوئی اس طرح بیٹا بھی موت کے آغوش میں سو سکتا تھا، اللہ نے بڑا کرم کیا ، میرا بیٹا زیادہ معذور نہیں ہوا، بچ گیا ، گاڑی تو دوسری بھی آجائے گی ، اگر میر ابیٹا مر جاتا تو؟ اس نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ اس سال کو اللہ نے میرے لیے رحمت بنا کر بھیجا تھا۔
آپ نے دیکھا واقعات وہی ہیں؛ لیکن نتائج الگ الگ اخذ کیے جا رہے ہیں، ایک منفی انداز میں تجزیہ کررہا ہے تو اسے پورے سال میں خرابی ہی خرابی نظر آتی ہے ، اور دوسرے کی سوچ مثبت ہے تو اس کو خیر ہی خیر پورے سال میں نظر آتا ہے، ظاہر ہے اس سوچ کا اثر اعمال پر بھی پڑتا ہے، منفی سوچ والا شکایتوں کے دفتر لے کر بیٹھ جائے گا اور مثبت سوچ والا کلمۂ شکر سے اپنی زبان کو تازگی بخشے گا ، اس لیے واقعات وحالات کا ایجابی اور مثبت اثر لینا چاہیے، زندگی بہتر انداز میں گذارنے کا یہی طریقہ ہے، آپ کے سامنے ایک گلاس ہے، جس میں تھوڑا پانی ہے، آپ اسے آدھا بھرا بھی کہہ سکتے ہیں، اور آدھا خالی بھی ، واقعاتی اعتبار سے دونوں صحیح ہے، لیکن اگر آپ اس گلاس کو جس میں پانی ہے، آدھا بھرا کہتے ہیں تو آپ کی سوچ مثبت ہے، اگر آپ اسے آدھا خالی کہتے ہیں تو یہ آپ کی منفی سوچ کی غماز ہے، اُگتے اور ڈوبتے سورج کا منظر یکساں ہوتا ہے، آپ کے سامنے تصویر رکھی گئی ، آپ نے کہا کہ یہ اُگتے سورج کی تصویر ہے، تو یہ آپ کی مثبت سوچ کی نشانی ہے ، کیوں کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ رات کی تاریکی دور ہو گئی اور آنے والا دن روشن اور تابناک ہے، لیکن اگر آپ نے اس تصویر میں سورج کو ڈوبتا ہوا سمجھا تو یہ آپ کی منفی سوچ کا مظہر ہے ، آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سورج ڈوب رہا ہے، روشن دن کا خاتمہ ہوا، آگے تاریک رات ہے، اس سوچ کا اثرآپ کے قوت فکر وعمل پر پڑے گا ، تقریر وتحریر پر بھی پڑے گا ، اس کی وجہ سے آپ کے کہنے کا اسلوب اور الفاظ بھی بدلے گا ، گلزار دبستاں میں ایک کہانی لکھی ہے کہ بادشاہ نے خواب دیکھا کہ اس کے سارے دانت گر گیے ہیں، نجومی نے تعبیر بتائی کہ آپ کے سارے اعزاء واقرباء آپ کی زندگی میں مر جائیں گے ،بادشاہ نے کہا کہ اچھا میرا بیٹا ، میری بیوی، میرا بھائی سب مر جائے گا اور میں ان کا جنازہ اٹھانے کے لیے زندہ رہوں گا، بادشاہ نے اس نجومی کو قید کر دیا ، دوسرے کو بلایا ، اس نے مبارک سلامت کہہ کر پہلے تو بادشاہ کے ذہن پر پہلی تعبیر کے اثرات کو دور کیا ، پھر کہا کہ حضور اس کی تعبیر یہ ہے کہ پورے خاندان میں اللہ آپ کی عمر سب سے دراز کرے گا ، بادشاہ نے خوش ہو کر اسے موتیوں سے تولوا دیا ، بات وہی ہے، نتیجہ بھی وہی ہے، لیکن ایک موت کی بات کرتا ہے، جسے کم ہی لوگ پسند کرتے ہیں اور ایک زندگی کی اور درازی عمر کی بات کرتا ہے، جس کی خواہش ہر کس وناکس کو ہوتی ہے، تعبیر کا یہ فرق بھی مثبت منفی سوچ کو ظاہر کرتا ہے۔
دفتری معاملات میں کچھ کام آپ سے لے کر دوسروں کو دیدیئے گئے ، منفی سوچ والا یہ کہے گا کہ میرے پَر کتر ے جا رہے ہیں اور دفتر میں مجھے بے وزن کیا جا رہا ہے ، مثبت سوچ والا اس واقعہ سے اس نتیجہ پر پہونچے گا کہ ہمارا دفتری بوجھ ہلکا ہو گیا ، اب ہم ان کاموں پر جو میرے ذمے رہ گیے ہیں، زیادہ توجہ اور محنت سے وقت لگا سکتے ہیں، جو ذمہ داریاں دوسروں کے حوالہ کر دی گئی ہیں، اس شخص کی اگر سوچ مثبت ہو گی تو وہ اسے آزمائش اور امتحان سمجھ کر اٹھائے گا، اور اس اضافی ذمہ داری کی وجہ سے اس کے اندر آمریت اور حاکمیت کا مزاج نہیں پیدا ہوگا، لیکن اگر سوچ منفی ہے تو اس کے اندر کبر ونخوت ، حاکمت اور آمریت کا مزاج پیدا ہوگا جو دیر سویر خود اس کے لیے مہلک ثابت ہو گا ، ملکوں کی تاریخ اور سماجی مشاہدات تو یہی بتاتے ہیں۔