یوم ولادت 15 جولائی پر خاص

مجتبی حسین کی یاد میں

معصوم مرادآبادی

ابھی چند روز ہی کی تو بات ہے، جب میں نے اپنے فیس بک دوستوں کو مجتبیٰ حسین کی شدید علالت کی اطلاع دی تھی۔ وہ رمضان کے اوائل میں شدید بیماری کی وجہ سے اپنے گھر سے بیٹے کے گھر منتقل ہوئے تھے۔ میں نے تفصیل معلوم کی تو پتہ چلا کہ وہ شدید کمزوری اور یادداشت میں کمی کے سبب بات کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اوراب تنہا ئی میں رہ کر بس آرام کرنا چاہتے ہیں۔ میرے لئے یہ خبر خاصی پریشان کن تھی، کیونکہ میں نے انھیں کبھی آرام کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ وہ ہر وقت بے آرامی کی حالت میں رہ کر اپنے دوستوں اور خیر خواہوں کی خبر گیری کرتے رہتے تھے۔ میں خود کو ان کے دوستوں میں تو شمار نہیں کرسکتا کیونکہ وہ مجھ سے عمر میں کوئی 27 سال بڑے تھے، لیکن اتنا ضرور ہے کہ وہ اکثر مجھے فون کرکے میری اور دہلی کے دیگردوستوں کی خیریت دریافت کرتے تھے اور اس دہلی کا حال چال بھی پوچھتے تھے، جہاں انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ گذارا۔ وہ این سی آرٹی سے سبکدوش ہونے کے بعد جسمانی طور پرحیدرآباد ضرور منتقل ہوگئے تھے، لیکن ان کا دل اسی دہلی میں پڑا رہتا تھا، جسے لوگ دل والوں کا شہر بھی کہتے ہیں۔

مجتبی حسین کی یاد میں
مجتبی حسین کی یاد میں

مجتبیٰ حسین نے بڑی سرگرم اور متنوع زندگی گذاری، لیکن گھٹنے کا آپریشن کرانے کے بعد ان کی زندگی بس موبائل فون تک سمٹ کررہ گئی تھی۔گھٹنے کا آپریشن کا میاب نہیں ہوسکا اور وہ چلنے پھرنے سے تقریباً معذور ہوگئے۔ان کی جسمانی کمزوری اور نقاہت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا اور آخروہ بالکل صاحب فراش ہوگئے۔

پچھلے سال جب انھیں دہلی اردو اکادمی نے اپنے سب سے بڑے اعزاز بہادر شاہ ظفرایوارڈ سے نوازا تو اس کی اطلاع سب سے پہلے میں نے ہی انھیں دی۔ انھیں اس خبر پریقین نہیں آیا، کیونکہ برسوں سے ان کا یہ حق مارا جارہا تھا۔ وہ اپنی بیماری اور معذوری کے باوجود یہ ایوارڈ وصول کرنے دہلی آئے اور بہت خوش ہوئے۔ یہ ان کا دہلی کا آخری سفر تھا۔حالانکہ ایوارڈوں کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں تھی۔ وہ ایک زندہ ضمیر والے انسان تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے پچھلے دنوں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف بطور احتجاج اپنا ’پدم شری ایوارڈ‘ حکومت کو واپس کردیاتھا، جو 2007 میں انھیں اس وقت کے صدر جمہوریہ ڈاکٹر اے پی جے عبد الکلام نے بڑے چاؤ سے پیش کیا تھا۔وہ موجودہ حالات سے بہت دل برداشتہ تھے اور انھوں نے فون پر اپنے اس درد و کرب کو مجھ سے ساجھا کیا تھا۔ مجتبیٰ حسین بہت زندہ دل آدمی تھے۔ طنزومزاح کے میدان میں مشتاق احمد یوسفی ا ورمجتبیٰ حسین برصغیر کے دو قدآور قلم کار تھے اور اب یہ دونوں ہی ہم سے رخصت ہوگئے ہیں۔البتہ عطاء الحق قاسمی نے اس فن کا علم مضبوطی سے تھام رکھا ہے۔

مزاح نگاروں کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ وہ اپنی تحریروں اور نگارشات کی حدتک ہی لطف اندوز ہونے کا موقع دیتے ہیں جبکہ وہ اپنی ذاتی زندگی میں خاصے سنجیدہ نظرآتے ہیں، لیکن مجتبیٰ حسین کا معاملہ یہ تھا کہ وہ ذاتی زندگی میں اپنی طنز ومزاح سے بھرپور تحریروں سے زیادہ بڑے مزاح نگار تھے۔ان سے گھنٹوں دلچسپ گفتگو ہوتی تھی اور وہ نئے نئے لطیفے سناتے تھے۔

کافی دنوں کی بات ہے کہ مجتبیٰ حسین صاحب سے دہلی کی ایک سیاسی افطار پارٹی میں ملاقات ہوئی۔ وہاں ’’روزہ داروں‘‘ کا ایک ہجوم بے کراں موجود تھا۔مجتبیٰ صاحب نے مجھے دیکھ کر کہا کہ جب آپ یہاں سے روانہ ہوں تو مجھے بھی ساتھ لے لیں، کیونکہ میرے پاس کوئی سواری نہیں ہے۔ ان کا اور میرا روٹ ایک ہی تھا۔ افطار پارٹی ختم ہونے کے بعد مجتبیٰ صاحب مجھے اور میں ان کو ڈھونڈتا رہا۔ موبائل کا زمانہ نہیں تھا کہ ایک دوسرے کوپکڑ سکیں۔ کافی دیر کی مشقت کے بعد جب ہم دونوں ایک دوسرے کے روبرو ہوئے تو مجتبیٰ صاحب کا بے ساختہ جملہ یہ تھا۔ ”ایک معصوم کو ڈھونڈنے کے لئے کتنے گناہ گاروں سے ملنا پڑا۔“

مجتبیٰ صاحب سے اپنی سینکڑوں ملاقاتوں کو یاد کرتا ہوں تو ان کی بے شمار یادیں ذہن میں کروٹیں بدلنے لگتی ہیں۔مجتبیٰ صاحب کی خوبی یہ تھی کہ اپنے ہم نشینوں کو کبھی بور نہیں ہونے دیتے تھے۔انھوں نے اپنے آخری وقت میں دنیا اور دنیا والوں سے کٹ کر آرام کرنے کا جو فیصلہ کیا تھا،وہ میری نظر میں صحیح نہیں تھا اور شاید ان کا یہ فیصلہ ہی ان پر بھاری پڑا۔ میری دعا ہے کہ خدا ان کو قبر کی منزلوں کو آسان فرمائے اور وہ حقیقی معنوں میں آرام کی نیند سوسکیں۔

اب آ خر میں مجتبیٰ حسین کی خاکوں پر مشتمل کتاب "چہرہ در چہرہ” سے کچھ اقتباسات ۔ یہ تحریر انھوں نے سات برس پہلے خود اپنی ہی یاد میں قلم بند کی تھی۔۔

"مجتبی حُسین ( جنہیں مرحوم کہتے ہوئے کلیجہ منھ کو آنا چاہیے، مگر کیوں نہیں آرہا) پَرسوں اِس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ یہ اُن کے مرنے کے دن نہیں تھے، کیونکہ اُنہیں تو بہت پہلے نہ صرف مرجانا چاہیے تھا بلکہ ڈوب مرنا چاہیے تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ جس دن سے وہ پیدا ہوئے ہیں، تب سے ہی لگاتار مرتے چلے جارہے ہیں۔ گویا اُنہوں نے مرنے میں پورے اَسّی سال لگادیے۔ لوگ ایڑیاں رگڑ رگڑ کرمرتے ہیں۔ یہ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر زندہ رہے۔ اُن کی زندگی بھی قسطوں میں چل رہی تھی اور مَرے بھی تو قسطوں میں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُن کی بڑی خواہش تھی کہ ملک کی آزادی میں بھرپور حصہ لیں۔ بڑی تمنا تھی کہ انگریز کی لاٹھیاں کھائیں۔ چنانچہ جب جب وہ اِس تمنا کا اظہار اَپنے والد سے کرتے تو اُن کی لاٹھی ضرور کھاتے۔

۔۔۔۔۔۔۔ مرحوم کی زندگی کی ٹریجڈی یہ تھی کہ وقت اُن کی زندگی میں کبھی وقت پر نہیں آیا۔ ہر کام قبل اَزوقت کِیا ، یا بعد اَز وقت۔ گویا زندگی بھر وقت سے آنکھ مِچَولی کھیلتے رہے۔ یہاں تک کہ آنکھ مِچَولی کھیلتے کھیلتے اُن کا آخری وقت آگیا۔ شادی بھی کی تو وقت سے پہلے، یعنی اُس عمر میں، جب اُنہیں یہ بھی پتا نہیں تھا کہ لوگ شادی کیوں کرتے ہیں۔ چنانچہ شادی کی پہلی ہی رات مرحوم اپنے کم عمر دوستوں کے ساتھ کَبَڈّی کھیلنے نکل پڑے۔ گھر کے بزرگ اُنہیں زبردستی پکڑ کر لے آئے اور تنہائی میں سمجھایا کہ کَبَڈّی کھیلنا ہی ہے تو ۔۔۔۔”

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply