’محمد مسلم : عظیم انسان، بیباک صحافی‘

معصوم مرادآبادی

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ہندوستان میں آزادی کی جنگ ا ردو اخبارات کے صفحات پر لڑی گئی اور اردو صحافیوں نے آزادی کے لیے عظیم قربانیاں پیش کیں، لیکن آزادی کے بعد اردو صحافت کا کارواں اس انداز میں آگے نہیں بڑھ سکا جس کی شدید ضرورت تھی۔ اردو صحافت کا غالب حصہ جذباتیت اور اشتعال انگیزی کا شکار رہا اور اس نے اپنے قارئین کے اندر مشکل حالات سے لڑنے کی بجائے مایوسی اور ناامیدی پیدا کی اور زرد صحافت کا علمبردار کہلایا، لیکن اسی گھٹاٹوپ اندھیرے میں کچھ صحافی ایسے بھی تھے جو ملت کو صحیح راہ دکھانے اور صراط مستقیم پر چلنے تلقین کر رہے تھے۔ان کا خیال تھا کہ نری جذباتیت کسی کام کی نہیں لہٰذا انھیں عقل وشعور سے کام لیتے ہوئے اپنی باقی ماندہ طاقت کو سمیٹ کر مثبت کاموں میں لگانا چاہئے۔ ایسے صحافیوں میں ایک نمایاں نام محمد مسلم کا بھی ہے جو ہفتہ وار ’دعوت‘ کے ایڈیٹر تھے۔ہر چند کہ اس اخبار کی ملکیت جماعت اسلامی کے پاس تھی، لیکن یہ جماعت کے حلقوں کے علاوہ اردو کے سنجیدہ قارئین کا بھی ایک پسندیدہ اخبار تھا۔محمدمسلم کے زمانہ ادارت میں اس اخبار کی جو اہمیت تھی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ آنجہانی وزیراعظم اندرا گاندھی جن اردو اخبارات کے ادارئیے ترجمہ کراکے پڑھتی تھیں ان میں محمدمسلم کی ادارت میں شائع ہونے والا ’دعوت‘ بھی تھا۔

’محمد مسلم : عظیم انسان، بیباک صحافی‘
’محمد مسلم : عظیم انسان، بیباک صحافی‘

آج میں محمد مسلم کا تذکرہ کرنے یوں بیٹھا ہوں کہ ان پر حال ہی میں سرکردہ صحافی جاوید اختر کی مرتب کردہ ایک کارآمد کتاب منظر عام پر آئی ہے اور مجھے یہاں اس کے مشمولات پر اظہار خیال کرنا ہے۔آگے بڑھنے سے پہلے ایک سرسری نظر محمد مسلم کی زندگی اور کارناموں پر ڈالنا چاہوں گا تاکہ آپ کو اندازہ ہوسکے کہ وہ کن صلاحیتوں کے انسان تھے اور انھوں نے کیا کارہائے نمایاں انجام دئیے۔محمدمسلم20/ستمبر1920کو بغداد ہند بھوپال میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنی صحافتی زندگی کا آغاز 1938میں بھوپال کے سب سے قدیم روزنامے ’ندیم‘ سے کیا۔1952 میں بھوپال سے دہلی آگئے اور یہاں 1953میں ہفتہ وار ’دعوت‘کے نائب مدیر کی ذمہ داریاں سنبھالیں اور1956ں باضابطہ اس کے مدیر بنے۔ یہ سلسلہ1982 تک جاری رہا۔’دعوت‘ سے ان کی وابستگی کی داستان ایک چوتھائی صدی کو محیط ہے۔ یہ وہ دور تھا جب ہندوستانی مسلمان غیر یقینی حالات سے دوچار تھے اور ان کے زخموں کو مرہم کی ضرورت تھی۔یہ کام محمد مسلم نے نہ صرف اخبار کے صفحات پر انجام دیا بلکہ وہ عملی زندگی میں بھی اس پر کاربند رہے۔’دعوت‘ کے مدیر کی حیثیت سے ان پر پانچ مقدمات قائم ہوئے اور1964 میں تیرہ دنوں کے لیے تہاڑ جیل بھی گئے۔1971کی ہندپاک جنگ کے دوران انھیں 42 دنوں تک جیل میں رکھا گیا۔ 1975میں ایمرجنسی کے دوران انھیں ایک بار پھر گرفتار کیا گیااور اکیس مہینوں کا یہ عرصہ انھوں نے دہلی اور انبالہ کی جیلوں میں گزارا۔ 3/جولائی1986کو پرانی دہلی میں کرائے کے ایک چھوٹے سے مکان میں وفات پائی اور قبرستان مہدیان میں آسودہ خواب ہیں۔

محمدمسلم کی پوری زندگی حرکت وعمل سے عبارت تھی اور ان کے قول وعمل میں کوئی تضاد نہیں۔ انھوں نے اپنے ناموس قلم کی حفاظت کی اور بنیادی نظریات سے انحراف نہیں کیا۔ وہ محض ایک صحافی نہیں بلکہ بہترین انسان اور نظریہ ساز بھی تھے۔اپنی بات مدلل انداز میں پیش کرتے تھے۔ انھوں نے مشکل ترین حالات میں بھی اشتعال انگیزی کا سہارا نہیں لیا۔ مثالی زندگی گزاری اور کبھی صلے اور ستائش کی پروا نہیں کی۔ انھوں نے یہ بھی ثابت کیا کہ کسی تنظیم سے وابستہ رہ کراس سے اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے۔وہ محض ایک صحافی اور مدیر ہی نہیں بلکہ ایک ملی رہنما اور سیاسی مدبر بھی تھے۔ محمدمسلم ہندومسلم اتحاد کے علمبردار تھے اور یہی وجہ ہے کہ سابق وزیراعظم اندکمار گجرال اور جید صحافی کلدیپ نیر سے ان کے دوستانہ مراسم تھے۔انھوں نے خود کو محض سیاسی اور سماجی موضوعات تک محدود نہیں رکھا بلکہ عالمی سیاست، معاشی، تعلیمی، اخلاقی اور سماجی امور پر بھی اپنے قلم کو جنبش دی۔ اہم بات یہ ہے کہ وہ ملی جماعتوں کے درمیان رابطہ کی ایک اہم کڑی تھے اور انھوں نے آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت، دینی تعلیمی کونسل، آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ جیسی سرکردہ تنظیموں کی بنیاد گزاری میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ وہ جماعت اسلامی کی اعلیٰ ترین فیصلہ ساز باڈی مجلس شوریٰ کے رکن تھے۔ اس کتاب کا پرمغز پیش لفظ جماعت اسلامی کے موجودہ امیر سید سعادت اللہ حسینی نے لکھا ہے۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

”یہ محض ایک شخصیت کے سوانحی حالات کا مرقع نہیں ہے بلکہ ایک عہد کے سیاسی، سماجی اور تہذیبی احوال کا آئینہ بھی ہے۔ ایک ایسا عہد جو ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ کا بڑا نازک اور ہنگامہ خیز عہد تھا۔ ایک باکمال وباکردار اور حوصلہ مند ودردمند قائد ودانشور نے اس عہد کی سنگینیوں کے ساتھ کس طرح تعامل کیا، اس کی پوری تصویر اس مجموعہ میں سامنے آجاتی ہے اور قاری کو معلوم ہوتا ہے کہ چیلنجوں کا کامیابی سے مقابلہ کس طرح کے نفسیاتی اور اخلاقی اوصاف چاہتا ہے۔ ایک ایسے دور میں جبکہ ہندوستانی مسلمان پھر ایک بار اپنی تاریخ کے ایک پرآشوب دور سے گزررہے ہیں، ایک سنجیدہ قاری اس مجموعہ میں اپنے عہد کے احوال ومسائل کا عکس بھی دیکھتا ہے اور ان مسائل کے درمیان آگے بڑھنے کے لیے نقوش راہ بھی اس کی نگاہوں کے سامنے روشن ہوجاتے ہیں۔“(ص 15)

زیرنظر کتاب محمدمسلم کی زندگی کے تمام پہلوؤں کا بخوبی احاطہ کرتی ہے۔اس کتاب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں اندرکمار گجرال، کلدیپ نیر، سیدعلی شاہ گیلانی، سید حامد، سیدشہاب الدین، جاوید حبیب، جی ڈی چندن، پروفیسر اخترالواسع،مولانا امداد صابری، ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی جیسی اہم شخصیات کے مضامین شامل ہیں۔ اس کتاب میں تقریباً پچاس مضامین کے علاوہ محمد مسلم کی وفات پر شائع ہونے والے مختلف اخبارات وجرائد کے ادارئیے،مسلم صاحب کے نام سرکردہ شخصیات کے خطوط میں ایک خط قائد ملت عبدالجلیل فریدی کا بھی ہے۔آخر میں خود محمدمسلم کے مضامین اور ادارئیے شامل کئے گئے ہیں اور ایک حصہ ’دعوت‘ کے مستقل کالم ’خبرونظر‘ کا بھی ہے۔یہ ایک نہایت کارآمد کتاب ہے جو ہمیں آزاد ہندوستان کے ایک ایسے اردو صحافی سے روشناس کراتی ہے جس نے درویشانہ زندگی بسر کی اور ملت کی شیرازہ بندی کا کارنامہ انجام دیا۔ سرکردہ صحافی جاوید اختر نے اس کتاب کی صورت گری میں بڑی محنت کی ہے اور اسے ایک کارآمد دستاویز میں بدل دیا ہے۔جو لوگ آزای کے بعد کی ملی تاریخ سے دلچسپی رکھتے ہیں،ان کے لیے یہ ایک نایاب تحفہ ہے۔ 320 صفحات پر پھیلی ہوئی اس کتاب کی قیمت 350 روپے ہے اور یہ مندرجہ ذیل واٹس ایپ نمبر پر رابطہ کرکے حاصل کی جاسکتی ہے۔9810780563

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare