مدارس اسلامیہ اور عصری تقاضے : ایک تجزیاتی مطالعہ
اسلم رحمانی
مدارس اسلامیہ اور عصری تقاضے جواں سال اسلامک اسکالر ڈاکٹر محمد حفظ الرحمٰن کی ایک شاہکار تصنیف ہے، جس میں مدارس اسلامیہ اور عصری تقاضے کے تحت لائق عمل تجاویز پیش کیے گئے ہیں۔دینی مدارس کے نظام تعلیم اور نصاب میں ضروریات زمانہ کے تناظر میں رد و بدل اور اضافہ کے بارے میں ایک عرصہ سے بحث جاری ہے جو اس لحاظ سے بہت مفید اور ضروری ہے کہ جہاں موجودہ نصاب کی اہمیت و افادیت کے بہت سے نئے پہلو اجاگر ہو رہے ہیں، وہاں عصر حاضر کی ضروریات کی طرف بھی توجہ مبذول ہونے لگی ہے، ڈاکٹر حفظ الرحمٰن کی زیر تبصرہ کتاب بھی اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی ہے۔مدارس اسلامیہ کے مقصد اساسی کو سامنے رکھتے ہوئےدو حصوں میں منقسم زیر تبصرہ کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مصنف کا مقصد ڈیڑھ اینٹ کی مسجد تعمیر کرنا نہیں ہے۔ حفظ الرحمٰن خود لکھتے ہیں کہ:آج ہم تاریخ کے ایسے موڑ پر کھڑے ہیں جہاں ہمیں کثیر جہتی نظریاتی اور علمی چیلنجز کا سامنا ہے۔اس لئے مدارس اسلامیہ کے لیے ایسی تعلیمی پالیسی وضع کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے جو ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے والے افراد پیدا کر سکے۔
اسی ضرورت کے احساس نے راقم الحروف کو خامہ فرسائی پر مجبور کیا ہے۔ لہٰذا یہ کتاب اہل نظر کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔ راقم کو اس کا اصرار نہیں کہ اہل نظر اس کتاب کے ہر جز سے پوری طرح متفق ہوں، بلکہ اعتراف ہے کہ غور و خوض کا جب مرحلہ آئے گا تو تجربہ کار آنکھیں ان گوشوں کو دیکھ سکیں گی جو راقم کی نظر سے اوجھل رہ گئی ہیں۔
(بیک کور)
درج بالا اقتباس میں جن چیلنجز کے طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ اب کسی سے مخفی نہیں ہے، یہی سبب ہے کہ خود علمائے کرام کی طرف سے بھی یہ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ دینی مدارس میں عصری تعلیم شامل ہونی چاہئے۔ بقول مصنف:مدارس اسلامیہ ایسے ادارے ہیں جن کا مقصد دنیائے انسانیت کو ایسے افراد مہیا کرنا ہے جو انسانیت کی سب سے بڑی ضرورت یعنی ضرورت ہدایت کو پوری کرنے کا ذریعہ بن سکیں اور بھٹکی ہوئی انسانیت کو اس کے "مقصد تخلیق” سے آگاہ کر سکیں۔مدارس کو ان کے اس مقصد سے دور کردینے والی ہر تجویز، چاہے وہ جتنے حسین پیرائے میں سامنے لائی جارہی ہو،نا منظور کرنے ہی کے لائق ہے۔ انسانی تاریخ کا مشاہدہ بتاتا ہے کہ یہ تاریخ کوئی منجمد اور ناقابل تغیر شئے نہیں ہے۔مختلف سماجی، سیاسی اور نظریاتی حالات ہرزمانے میں انسانی سماج کو متاثر کرتے ہیں اور ہر سطح پر تبدیلی لاتے رہے ہیں۔ یہ تبدیلیاں نظریات کی دنیا میں ہلچل مچاتی اور دنیا میں انسانیت کے قافلے کو حق سے دور اور باطل سے قریب ترکرتی رہی ہیں۔ ایسے حالات کے ظہور سے علمائے دین کو اپنی آنکھیں بند رکھنا اور خود کو اس سے کنارہ کش کر لینا کسی طرح زیب نہیں دیتا۔
(ایضا)
مدارس اسلامیہ کا نصاب تعلیم: موضوع بحث؛مدارس اسلامیہ کا نصاب تعلیم ایک حساس اور اہم موضوع ہے جس پر مختلف آراء اور نظریات پائے جاتے ہیں۔ مدارس اسلامیہ کا مقصد اسلامی تعلیمات کی روشنی میں طلبہ کی دینی، اخلاقی اور معاشرتی تربیت کرنا ہوتا ہے۔ تاہم، اس نصاب کی نوعیت، اس کی تطبیق اور جدید معاشرتی ضروریات کے مطابق اس میں تبدیلیوں کے حوالے سے مختلف سوالات اُٹھائے جاتے ہیں۔مدارس اسلامیہ کے نصاب کا بنیادی ڈھانچہ،قرآن و حدیث،فقہ،عقائد،تاریخ اسلام، اسلامی تاریخ، اہم شخصیات،اہم واقعات، اور عربی زبان کی تعلیم پر خاص زور دیا جاتا ہے کیونکہ زیادہ تر اسلامی متون اور کتب عربی زبان میں ہیں۔ لیکن یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ مدارس میں عصری علوم جیسے سائنسی، معاشی اور ٹیکنالوجی کے مضامین پر توجہ کم دی جاتی ہے، جو کہ طلبہ کو جدید دنیا کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب کے حصہ اول(نصاب تعلیم)میں مصنف نے نصاب تعلیم کے تحت موجودہ علمی تحدیاں اور مدارس اسلامیہ، مشترکہ تعلیمی لائحہ، تخصص فی السیاسہ، تخصص فی الاقتصاد اور تخصص فی علم الاجتماع کے عناوین سے نہایت ہی مدلل انداز میں مدارس اسلامیہ کے نظام کو مستحکم کرنے کے متعلق لائق عمل تجاویز پیش کیے گئے ہیں۔ اسی طرح حصہ دوم میں مشورے اور گزارشیں کے تحت انگریزی کے اساتذہ کی قلت کا مسئلہ، فارسی کتب سے استفادہ میں مشکلات، انگریزی داں علماء اور مدارس و مساجد، نصاب میں تبدیلی کے مثبت اثرات، اتحاد ملت اور مدارس اسلامیہ، ہماری ترجیحات میں تبدیلی ضروری، مدارس اسلامیہ اور عصری تعلیم، اسلامی اقامت خانہ کا قیام، دینی و اخلاقی تربیت، مدرسہ اور مساجد کی نام گزاری اور اختتامیہ میں بھی بیش قیمتی مشورے اور تجاویز پیش کیے ہیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت از حد ضروری ہے کہ زیر تبصرہ کتاب کے مطالعے سے یہ بات بالکل صاف ہوجاتی ہے کہ عصری تقاضے کے مطابق مدارس اسلامیہ کا نصاب تعلیم مرتب کرنے کے تجاویز کے پس پردہ مصنف کا قطعا یہ ارادہ ظاہر نہیں ہے کہ مدارس اسلامیہ کی روح ختم کر دی جائے، بلکہ زیر تبصرہ کتاب میں مصنف بار بار اس بات پر زور دیتے نظر آتے ہیں کہ مدارس اسلامیہ کے مقصد اساسی کو سامنے رکھتے ہوئے حالات کا مقابلہ کرنے اور اسلام کے آفاقی پیغام یعنی دعوت و تبلیغ کے فرائض کو انجام دینے کے لیے مدارس اسلامیہ کو عصری تقاضوں سے پختہ طور پر باخبر رہنا اور اس کی زبان اور اسلوب سے واقف ہونا ازحد ضروری ہے کیوں کہ اسلام کا آفاقی پیغام انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیے ہے اور اس پیغام کی تبلیغ کرنے کے لیے عصری تعلیم کا حصول بے حد ضروری ہے۔ جدید تعلیم کے ذریعے اسلام کی حقیقت، اخلاقیات اور سماجی اصولوں،معاشرتی عدلیہ، برابری، حقوق انسانیت اور فلاحی کاموں کی اہمیت کو اجاگر کیا جا سکتا ہے۔اسلام کے آفاقی پیغام کا مقصد انسانیت کی خدمت کرنا ہے،مجموعی طور پر، اسلام کا پیغام انسان کی فلاح و بہبود کے لیے ہے، اور عصری تعلیم اس پیغام کو عصری اسلوب میں سمجھانے کے لیے ایک اہم وسیلہ ہے۔ اسی اہمیت کے پیش نظر مدارس اسلامیہ کے نصاب تعلیم پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت کی طرف توجہ مبذول کراتے ہوئے،زیر تبصرہ کتاب کے مصنف رقم طراز ہیں کہ:اس میں شبہ نہیں کہ دہائیوں سے مدارس اسلامیہ کا نصاب تعلیم بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ اس سلسلے میں کئی تجربات ہورہے ہیں۔ بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر اس بات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اس مسئلہ پر غور و خوض کیا جائے۔ البتہ یہ ضروری ہے کہ جو گفتگو بھی ہو مدارس کے مقصد اساسی کو سامنے رکھ کر ہو،کیوں کہ ہر ادارے کی افادیت اسی وقت تک رہتی ہے جب تک وہ اپنے مقصد قیام کو پورا کررہا ہوتا ہے۔
(ص:25)
یقینا دینی مدارس اسلامیہ اسلام کے قلعے اور اسلامی تربیت کے مراکز ہیں جہاں اس اُمت کے مخصوص طبقہ کو دین اسلام کی تعلیم و ترویج کیلئے علمی ، اخلاقی اور روحانی طورپر تیار کیا جاتا ہے ، طلباء دینی مراکز میں اسلامی تعلیم و تربیت سے آراستہ ہوکر خدمت دین کے جذبہ کے ساتھ ملت اسلامیہ کی دینی و شرعی رہنمائی و رہبری کے لئے اپنی زندگی کو وقف کردیتے ہیں۔ لیکن مدارس اسلامیہ کا جو روایتی تعلیمی نظام تسلسل کے ساتھ چلا آرہا ہے اسے چھیڑنے کی ضرورت نہیں ہے البتہ عصری تقاضوں کے حوالہ سے ایک نئے تعلیمی تجربے کا اہتمام ضرور ہونا چاہیے، اس ضمن میں زیر تبصرہ کتاب کے مصنف مزید لکھتے ہیں کہ:زمانی تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے نصاب تعلیم پہ نظر ثانی ہر زمانے میں ہوتے رہنا چاہیے تاکہ عصری تقاضے سے ہم آہنگی ہوتی رہے۔
(ص:26)
مدارس اسلامیہ کو عصری تقاضوں دور رکھنے کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ دینی مدارس کے فضلاء اور نوجوان نسل کے درمیان ایک بڑی خلیج پیدا ہو گئی، وہ ایک دوسرے کو اپنی بات سمجھانے کے لائق نہیں رہے، غور کیجئے کہ فکری یورشوں کے اس ماحول میں اگر ہم دوسروں کی بات سمجھ نہیں سکے اور اپنی بات ان کو سمجھا نہیں سکے تو کیسے ہم اس فکری معرکہ میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں، اور اپنی نئی نسل کو ایمان پر قائم رکھ سکتے ہیں؟ اس لئے یہ بات بہت اہم ہے کہ تمام قانونی پہلوؤں کو سامنے رکھتے ہوئے مدارس کے نصاب تعلیم کو اس طرح جدید علوم سے آراستہ کیا جائے کہ مدرسہ رہتے ہوئے یہاں عصری تعلیم کا انتظام ہو، ایسا بھی نہ ہو کہ یہ مکمل طور پر اسکول کے رنگ میں رنگ جائے۔ زیر تبصرہ کتاب میں مدارس اسلامیہ کے نصاب تعلیم کو عصری تقاضوں کے مطابق معیاری بنانے کےلئے کئی اہم تجاویز پیش کیے گئے ہیں۔ مصنف کا خیال ہے کہ قرآن مجید کے پیغامات کو عام کرنے کے لیے عصری علوم کا حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔ آج کی دنیا میں جہاں ٹیکنالوجی، سائنس اور دیگر جدید شعبوں میں تیزی سے ترقی ہو رہی ہے، وہاں قرآن کے پیغامات کو مؤثر طریقے سے پہنچانے کے لیے جدید ذرائع اور مہارتوں کا استعمال کرنا ضروری ہو گیا ہے۔عصری علوم، جیسے کمپیوٹر سائنس، میڈیا، سوشیل میڈیا، اور دیگر مواصلاتی طریقوں کا استعمال قرآن کی تعلیمات کو زیادہ مؤثر اور وسیع پیمانے پر پھیلانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے ذریعے قرآن کے پیغامات کو عالمی سطح پر مختلف زبانوں اور ثقافتوں تک پہنچایا جا سکتا ہے، اور لوگوں تک اللہ کی ہدایات اور اس کے اصولوں کو واضح اور آسان انداز میں منتقل کیا جا سکتا ہے۔خود میرا ذاتی موقف بھی یہ ہے کہ دینی مدارس کا جو روایتی تعلیمی نظام تسلسل کے ساتھ چلا آرہا ہے اسے چھیڑنے کی ضرورت نہیں ہے البتہ عصری تقاضوں کے حوالہ سے ایک نئے تعلیمی تجربے کا اہتمام ضرور ہونا چاہیے۔
زیر تبصرہ کتاب جاذب نظر اور بڑی اہمیت کی حامل ہے۔ دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے سابق استاد مولانا محمد احمد بیگ ندوی اور جامعہ فاطمہ للبنات مظفرپور بہار کے بانی و مہتمم مولانا بدیع الزماں ندوی قاسمی کی تقریظ سے کتاب کی اہمیت مزید دو بالا ہوگئی ہے۔دو سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب 2021ء میں اردو ڈائریکٹوریٹ حکومت بہار کی اشاعتی امداد سے روز ورڈ بکس سے شائع ہوئی ہے۔ اس تاریخی قلمی کاوش کےلئے مصنف ڈاکٹر حفظ الرحمٰن کو پرخلوص مبارکباد، امید ہے کہ اہل علم اس کتاب میں پیش کیے گئے تجاویز پر سنجیدگی سے غور و خوض کریں گے۔تاکہ مدارس اسلامیہ کو عصری تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ کر سکیں تاکہ وہ جدید دور کے چیلنجز کا مقابلہ کرسکیں اور اپنے طلباء کو عالمی سطح پر کامیابی کے لیے تیار کر سکیں، ساتھ ہی ان کی دینی اور اخلاقی تعلیم میں کوئی کمی نہ آئے۔کتاب کا سروق کتاب کے نام سے ہم آہنگ ہے، کتاب کےلئے مصنف کا رابطہ نمبر: 9990457104