مسجدیں، اذان، لاؤڈ اسپیکر اور ممبئی پولیس

تکلف برطرف : سعید حمید

بات شروع ہوئی متنازع سیاست داں اور بی جے پی لیڈر کریٹ سومیا کی

نام نہاد بھونگا مکت ممبئی نام سے شروع کی گئی مہم سے ،

مسجدیں، اذان، لاؤڈ اسپیکر اور ممبئی پولیس
مسجدیں، اذان، لاؤڈ اسپیکر اور ممبئی پولیس

اس سے قبل ممبئی پولس کہاں سو رہی تھی ؟ اسے صوتی آلودگی کے قانون ،

اور سپریم کورٹ کے احکامات کا کیا علم نہیں تھا ؟

اور کیا یہ حکم صرف مسجدوں اور اذان سے ہی متعلق ہے ؟

پھر کریٹ سومیا صرف مسجدوں ، مسجدوں کیوں گھومتا رہا ؟ اس نے کسی مندر ، گرودوارے ،

گرجا گھر کا رخ کیوں نہیں کیا ؟

کیا کرٹ سومیا کو نہیں معلوم کہ رات دس بجے کے بعد اگر لاؤڈ اسپیکر نہیں استعمال کیا

جاسکتا تو پھر ممبئی کے ہزاروں بئیر بار ، ڈانس بار ، ڈانس کلب میں رات بھر

کیا ہوتا ہے ؟ کیا کرٹ سومیا نے کبھی کسی نائٹ بئیر بار ، ڈانس بار ، ڈانس کلب کا وزٹ

کیا اور وہاں جاکر یہ معلوم کیا کہ وہاں آس پاس میں جو شور اندر سے باہر

سنائی دیتا ہے ، وہ کس کا شور ہے ؟ کیا وہ بھونگے نہیں ہیں ؟

اور وہاں جو رات بھر بھونگے بجتے ہیں ، جن کا شور باہر تک پہنچتا ہے ، ان کا

decible کیا ہے ؟ اور کیا وہ سب ہزاروں ڈانس بار ، بیئر بار سپریم کورٹ اور صوتی

آلودگی کے قانون پر عمل کرتے ہوئے رات بھر چلائے جاتے ہیں ؟

کرٹ سومیا کو اس کی فکر نہیں ، ممبئی پولس کو بی اس کی فکر نہیں ، بس دونوں مسجدوں کے

پیچھے پڑگئے ، کیوں ؟ کرٹ سومیا کی نام نہاد مہم کے بعد ہی ممبئی پولس کیوں

حرکت میں آ گئی ؟ کیا وہ بھونگا مکت ابھیان کو کامیاب بنانا چاہتی ہے ؟

اس سوال کا جواب ممبئی پولس کو دینا ہوگا ۔

فرض کیجئے ، کرٹ سومیا کی جگہ کوئی مسلمان لیڈر ہوتا اور اس نے صرف مندروں کو

ٹارگیٹ کیا ہوتا ، اور ان کے خلاف کمپلینٹ کی ہوتی ، جگہ جگہ مندروں

کا وزٹ کیا ہوتا ، تو ممبئی پولس کا اس کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ؟

اس کو پولس کمانڈوز کی سیکوریٹی دی جاتی ؟ یا اس کے خلاف نوٹس اور وارنٹ

تک جاری کردئیے جاتے اور اس کے خلاف دوفرقہ میں کشیدگی پھیلانے

کے الزام میں کیس بھی درج کرلیا جاتا ؟

آج وہ بے چارہ جیل میں ہوتا ، لیکن کرٹ سومیا کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا ۔

اسلئے ، جب بات ہو گی ، مسجدوں کی ، اذان کی ۔لاؤڈ اسپیکر کی اور ممبئی پولس کی

تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ پہلے قدم پر ہی ممئی پولس نے مسلمانوں کے ساتھ

سوتیلا سلوک کیا ، انصاف سے کام نہیں لیا ۔

کیا صوتی آلودگی کا قانون نیا ہے ؟ کیا اس قانون پر سپریم کوٹ کا آرڈر نیا ہے ؟

کیا یہ آرڈر صرف مسجدوں کیلئے ہے ؟ اذان کیلئے ہے ؟

بیئر باروں ، ڈانس باروں ، ڈانس کلب وغیرہ کے لئے نہیں ہے ؟

کیا یہ قانون سیاسی جماعتوں کے جلسوں جلوسوں اور ریلی کیلئے نہیں ہے ؟

کیا یہ قانون نوراتری تہوار پر لاگو نہیں ہوتا ہے ؟

کیا یہ قانون گنیش چترتھی تہوار پر لاگو نہیںہوتا ہے ؟

کیا یہ قانون شادی ، بارات ، اور مختلف قسم کے کلچرل ، سماجی ، و دیگر پروگراموں

پر نافذ نہیں ہوتا ہے ، جہاں بھونگے پر بھونگے ، بھونگے پر بھونگے ،

ڈی جے پر ڈی جے ، ڈی جے پر ڈی جے لگائے جاتے ہیں ؟

کیا ان کی آواز یا شور مسجدوں کی اذان سے کم ہوا کرتا ہے ؟ اور قانون کے دائرے

میں ہوتا ہے ؟ کہ ممبئی پولس نے کبھی ان کے خلاف کوئی ایسی کاروائی نہیں کی

جسے بھونگا مکت کہا جائے ۔

یہ سوال ممبئی پولس کے اعلی افسران سے کیا جانا چاہئے کیونکہ پولس کو دستور کا

وفادار ہو نا چاہئے ، دستور کا پاسدار ہونا چاہئے ، کسی شخص یا سیاسی پارٹی

یا برسراقتدار جماعت کا وفادار نہیں ہو نا چاہیے !!

ہمار دستور تاکید کرتا ہے کہ قانون کی نظروں میں سب برابر ہیں ۔

 

EQALITY BEFORE THE LAW

یہ دستور ہند کا ایک سنہری اصول ہے لیکن جب ہم مسجدوں پر لاؤڈ اسپیکر اور

اذان کے معاملہ میں ممبئی پولس کا رویہ دیکھ رہے ہیں تو دستور کا یہ اہم

اور سنہری اصول دھواں، دھواں ہوتا دکھائی دیتا ہے !!!

روزانہ کہیں نہ کہیں ، کسی پولس اسٹیشن کی رپورٹ آتی ہے جس سے پتہ

چلتا ہے جیسے مسجدوں کے ٹرسٹیوں پر جبراً دباؤ ڈالا جا رہا ہے اور یہ کہا

جا رہا ہے کہ لاؤڈ اسپیکر ( بھونگا) ہٹاؤ اور چھوٹا باکس اسپیکر لگاؤ

کہ کوئی آواز مسجد کے باہر تک بھی نا آسکے ۔۔۔۔۔۔!!

کیا ممبئی پولس کرٹ سومیا کی بھونگا مکت ممبئی ابھیان کی پارٹنر نہیں بن رہی ہے ؟

کیا ا سکی غیر جانب دار امیج داغ دار نہیں بن رہی ہے ؟

تو پھر قانون آواز کی مقررہ حد(decible) کا ہے ، ممبئی پولس نے اس معاملہ کو

آواز پھینکنے والے آلے (INSTRUMENT) کا کیوں بنا دیا ہے ؟

اور اگر ممبئی پولس کا موقف درست ہے ، قانونی ہے ، تو پھر ممبئی پولس ایک نوٹی فیکیشن

جاری کرے اور شہر میں بھونگے یا لاؤڈ اسپیکرکے کسی بھی استعمال پر

مکمل پابندی عائد کردے ، جو سب کیلئے ہو ، صرف مسجدوں کیلئے نا ہو !!!

یہ بات اسلئے کہی جا رہی ہے کہ بہت سے ٹرسٹیو ں اور قائدین سے بھنگا نکالنے کی

دلیل میں کئی پولس افسران نے کہا کہ بھونگا قانون کی سوتی حدود یا اس سے

کم آواز نشر ہی نہیں کرسکتا ، اس لئے ممبئی پولس مسجدوں میں باکس اسپیکر لگانے

کا مشورہ دے رہی ہے ، ( بلکہ اس کیلئے زور زبردستی بھی کر رہی ہے ) ۔۔۔۔

اب جو ممبئی پولس پر زور زبردستی کا الزام عائد ہو رہا ہے ،

وہ اس لئے کہ بھونگا مکت ابھیان سے بات شروع ہو ئی اور اب کہا ں کہا ں پہنچ رہی ہے ؟

اب مسجدوں کی گویا انکوائری ہو رہی ہے ، پولس انکوائری !!

مسجدوں کو نسوٹس بھیجی جا رہی ہے اور کافی معلومات ، جن کا پولس کے فرائض یا کام کاج سے

کچھ لینا دینا نہیں ہے ، وہ پوچھی جا رہی ہے : مثلا ً :

مسجد کہاں رجسٹر ہے ؟ وقف بورڈ میں یا چیریٹی کمشنر میں ، اس کا حساب کیا جاتا ہے ،

یا نہیں ؟ اس کو چندہ کہاں سے آتا ہے ، خرچ کیسے چلتا ہے ؟ وغیرہ

زمین کے متعلق کاغذات بھی مانگے جا رہے ہیں ، بنک اکاؤنٹ کی تفصیل بھی

طلب کی جا رہی ہے ۔یہ سارے اختیارات چیریٹی کمشنر آفس

یا وقف بورڈ کے ہیں ، لیکن یہ سب کام پولس کر رہی ہے ، تو کیا پولس

کو سرکار نے چیریٹی کمشنر اور وقف بورڈ کے بھی کام کاج اور اختیارات

سونپ دیئے ہیں ؟

کیا ا سکا مطلب یہ ہے کہ اب یہ سارے کام ممبئی پولس کو سونپ کر چیریٹی

کمشنر آفس اور وقف بورڈ آفس کو تالا لگا دیا جائے ؟

اپنے اختیارات سے تجاوز کرکے ممبئی پولس دیگر سرکاری محکموں کے اختیارات

پر اس وقت ہاتھ صاف کر رہی ہے ، جب کہ اس پر الزام ہے کہ وہ کرٹ

سومیا کی بھونگا مکت ممبئی کے ایجنڈے میں ساتھ دے رہی ہے ،

یہ بات ممبئی پولس کی غیر جانبدار امیج کیلئے اچھی نہیں ہے !!!

بھونگے کی جگہ باکس اسپیکر کا آج ممبئی پولس شہر کی تقریبا ً دو ہزار سے زائد

مسجدوں کو دے رہی ہے ، تو کیا یہی ممبئی پولس نوراتری پنڈالوں کو بھی حکم دے گی

کہ وہ بھی ڈانڈیا کھیلنے کیلئے باکس اسپیکر کا ااستعمال کریں، بھونگے کا نہیں ؟

قانون تو سب کیلئے ایک ہونا چاہئے !!

مسجدیں ،اذان ، لاؤڈ اسپیکر اور ممبئی پولس
تکلف برطرف : سعید حمید
بات شروع ہوئی متنازع سیاست داں اور بی جے پی لیڈر کریٹ سومیا کی
نام نہاد بھونگا مکت ممبئی نام سے شروع کی گئی مہم سے ،
اس سے قبل ممبئی پولس کہاں سو رہی تھی ؟ اسے صوتی آلودگی کے قانون ،
اور سپریم کورٹ کے احکامات کا کیا علم نہیں تھا ؟
اور کیا یہ حکم صرف مسجدوں اور اذان سے ہی متعلق ہے ؟
پھر کریٹ سومیا صرف مسجدوں ، مسجدوں کیوں گھومتا رہا ؟ اس نے کسی مندر ، گرودوارے ،
گرجا گھر کا رخ کیوں نہیں کیا ؟
کیا کرٹ سومیا کو نہیں معلوم کہ رات دس بجے کے بعد اگر لاؤڈ اسپیکر نہیں استعمال کیا
جاسکتا تو پھر ممبئی کے ہزاروں بئیر بار ، ڈانس بار ، ڈانس کلب میں رات بھر
کیا ہوتا ہے ؟ کیا کرٹ سومیا نے کبھی کسی نائٹ بئیر بار ، ڈانس بار ، ڈانس کلب کا وزٹ
کیا اور وہاں جاکر یہ معلوم کیا کہ وہاں آس پاس میں جو شور اندر سے باہر
سنائی دیتا ہے ، وہ کس کا شور ہے ؟ کیا وہ بھونگے نہیں ہیں ؟
اور وہاں جو رات بھر بھونگے بجتے ہیں ، جن کا شور باہر تک پہنچتا ہے ، ان کا
decible کیا ہے ؟ اور کیا وہ سب ہزاروں ڈانس بار ، بیئر بار سپریم کورٹ اور صوتی
آلودگی کے قانون پر عمل کرتے ہوئے رات بھر چلائے جاتے ہیں ؟
کرٹ سومیا کو اس کی فکر نہیں ، ممبئی پولس کو بی اس کی فکر نہیں ، بس دونوں مسجدوں کے
پیچھے پڑگئے ، کیوں ؟ کرٹ سومیا کی نام نہاد مہم کے بعد ہی ممبئی پولس کیوں
حرکت میں آ گئی ؟ کیا وہ بھونگا مکت ابھیان کو کامیاب بنانا چاہتی ہے ؟
اس سوال کا جواب ممبئی پولس کو دینا ہوگا ۔
فرض کیجئے ، کرٹ سومیا کی جگہ کوئی مسلمان لیڈر ہوتا اور اس نے صرف مندروں کو
ٹارگیٹ کیا ہوتا ، اور ان کے خلاف کمپلینٹ کی ہوتی ، جگہ جگہ مندروں
کا وزٹ کیا ہوتا ، تو ممبئی پولس کا اس کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ؟
اس کو پولس کمانڈوز کی سیکوریٹی دی جاتی ؟ یا اس کے خلاف نوٹس اور وارنٹ
تک جاری کردئیے جاتے اور اس کے خلاف دوفرقہ میں کشیدگی پھیلانے
کے الزام میں کیس بھی درج کرلیا جاتا ؟
آج وہ بے چارہ جیل میں ہوتا ، لیکن کرٹ سومیا کے ساتھ ایسا کچھ نہیں ہوا ۔
اسلئے ، جب بات ہو گی ، مسجدوں کی ، اذان کی ۔لاؤڈ اسپیکر کی اور ممبئی پولس کی
تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ پہلے قدم پر ہی ممئی پولس نے مسلمانوں کے ساتھ
سوتیلا سلوک کیا ، انصاف سے کام نہیں لیا ۔
کیا صوتی آلودگی کا قانون نیا ہے ؟ کیا اس قانون پر سپریم کوٹ کا آرڈر نیا ہے ؟
کیا یہ آرڈر صرف مسجدوں کیلئے ہے ؟ اذان کیلئے ہے ؟
بیئر باروں ، ڈانس باروں ، ڈانس کلب وغیرہ کے لئے نہیں ہے ؟
کیا یہ قانون سیاسی جماعتوں کے جلسوں جلوسوں اور ریلی کیلئے نہیں ہے ؟
کیا یہ قانون نوراتری تہوار پر لاگو نہیں ہوتا ہے ؟
کیا یہ قانون گنیش چترتھی تہوار پر لاگو نہیںہوتا ہے ؟
کیا یہ قانون شادی ، بارات ، اور مختلف قسم کے کلچرل ، سماجی ، و دیگر پروگراموں
پر نافذ نہیں ہوتا ہے ، جہاں بھونگے پر بھونگے ، بھونگے پر بھونگے ،
ڈی جے پر ڈی جے ، ڈی جے پر ڈی جے لگائے جاتے ہیں ؟
کیا ان کی آواز یا شور مسجدوں کی اذان سے کم ہوا کرتا ہے ؟ اور قانون کے دائرے
میں ہوتا ہے ؟ کہ ممبئی پولس نے کبھی ان کے خلاف کوئی ایسی کاروائی نہیں کی
جسے بھونگا مکت کہا جائے ۔
یہ سوال ممبئی پولس کے اعلی افسران سے کیا جانا چاہئے کیونکہ پولس کو دستور کا
وفادار ہو نا چاہئے ، دستور کا پاسدار ہونا چاہئے ، کسی شخص یا سیاسی پارٹی
یا برسراقتدار جماعت کا وفادار نہیں ہو نا چاہیے !!
ہمار دستور تاکید کرتا ہے کہ قانون کی نظروں میں سب برابر ہیں ۔

EQALITY BEFORE THE LAW
یہ دستور ہند کا ایک سنہری اصول ہے لیکن جب ہم مسجدوں پر لاؤڈ اسپیکر اور
اذان کے معاملہ میں ممبئی پولس کا رویہ دیکھ رہے ہیں تو دستور کا یہ اہم
اور سنہری اصول دھواں، دھواں ہوتا دکھائی دیتا ہے !!!
روزانہ کہیں نہ کہیں ، کسی پولس اسٹیشن کی رپورٹ آتی ہے جس سے پتہ
چلتا ہے جیسے مسجدوں کے ٹرسٹیوں پر جبراً دباؤ ڈالا جا رہا ہے اور یہ کہا
جا رہا ہے کہ لاؤڈ اسپیکر ( بھونگا) ہٹاؤ اور چھوٹا باکس اسپیکر لگاؤ
کہ کوئی آواز مسجد کے باہر تک بھی نا آسکے ۔۔۔۔۔۔!!
کیا ممبئی پولس کرٹ سومیا کی بھونگا مکت ممبئی ابھیان کی پارٹنر نہیں بن رہی ہے ؟
کیا ا سکی غیر جانب دار امیج داغ دار نہیں بن رہی ہے ؟
تو پھر قانون آواز کی مقررہ حد(decible) کا ہے ، ممبئی پولس نے اس معاملہ کو
آواز پھینکنے والے آلے (INSTRUMENT) کا کیوں بنا دیا ہے ؟
اور اگر ممبئی پولس کا موقف درست ہے ، قانونی ہے ، تو پھر ممبئی پولس ایک نوٹی فیکیشن
جاری کرے اور شہر میں بھونگے یا لاؤڈ اسپیکرکے کسی بھی استعمال پر
مکمل پابندی عائد کردے ، جو سب کیلئے ہو ، صرف مسجدوں کیلئے نا ہو !!!
یہ بات اسلئے کہی جا رہی ہے کہ بہت سے ٹرسٹیو ں اور قائدین سے بھنگا نکالنے کی
دلیل میں کئی پولس افسران نے کہا کہ بھونگا قانون کی سوتی حدود یا اس سے
کم آواز نشر ہی نہیں کرسکتا ، اس لئے ممبئی پولس مسجدوں میں باکس اسپیکر لگانے
کا مشورہ دے رہی ہے ، ( بلکہ اس کیلئے زور زبردستی بھی کر رہی ہے ) ۔۔۔۔
اب جو ممبئی پولس پر زور زبردستی کا الزام عائد ہو رہا ہے ،
وہ اس لئے کہ بھونگا مکت ابھیان سے بات شروع ہو ئی اور اب کہا ں کہا ں پہنچ رہی ہے ؟
اب مسجدوں کی گویا انکوائری ہو رہی ہے ، پولس انکوائری !!
مسجدوں کو نسوٹس بھیجی جا رہی ہے اور کافی معلومات ، جن کا پولس کے فرائض یا کام کاج سے
کچھ لینا دینا نہیں ہے ، وہ پوچھی جا رہی ہے : مثلا ً :
مسجد کہاں رجسٹر ہے ؟ وقف بورڈ میں یا چیریٹی کمشنر میں ، اس کا حساب کیا جاتا ہے ،
یا نہیں ؟ اس کو چندہ کہاں سے آتا ہے ، خرچ کیسے چلتا ہے ؟ وغیرہ
زمین کے متعلق کاغذات بھی مانگے جا رہے ہیں ، بنک اکاؤنٹ کی تفصیل بھی
طلب کی جا رہی ہے ۔یہ سارے اختیارات چیریٹی کمشنر آفس
یا وقف بورڈ کے ہیں ، لیکن یہ سب کام پولس کر رہی ہے ، تو کیا پولس
کو سرکار نے چیریٹی کمشنر اور وقف بورڈ کے بھی کام کاج اور اختیارات
سونپ دیئے ہیں ؟
کیا ا سکا مطلب یہ ہے کہ اب یہ سارے کام ممبئی پولس کو سونپ کر چیریٹی
کمشنر آفس اور وقف بورڈ آفس کو تالا لگا دیا جائے ؟
اپنے اختیارات سے تجاوز کرکے ممبئی پولس دیگر سرکاری محکموں کے اختیارات
پر اس وقت ہاتھ صاف کر رہی ہے ، جب کہ اس پر الزام ہے کہ وہ کرٹ
سومیا کی بھونگا مکت ممبئی کے ایجنڈے میں ساتھ دے رہی ہے ،
یہ بات ممبئی پولس کی غیر جانبدار امیج کیلئے اچھی نہیں ہے !!!
بھونگے کی جگہ باکس اسپیکر کا آج ممبئی پولس شہر کی تقریبا ً دو ہزار سے زائد
مسجدوں کو دے رہی ہے ، تو کیا یہی ممبئی پولس نوراتری پنڈالوں کو بھی حکم دے گی
کہ وہ بھی ڈانڈیا کھیلنے کیلئے باکس اسپیکر کا ااستعمال کریں، بھونگے کا نہیں ؟
قانون تو سب کیلئے ایک ہونا چاہئے !!

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare