مشہور فکشن رائٹر ڈاکٹر عبد الصمد کو اقبال سمّان
فخرالدین عارفی
مدھیہ پردیش کی حکومت کے سنسکریتی وبھاگ نے اردو کے مشہور فکشن رائٹر ڈاکٹر عبد الصمد کو اپنا سب سے بڑا ایوارڈ "اقبال سمّان ” دینے کا اعلان کیا ہے ۔ اس ایوارڈ میں ان کو توصیفی سند کے ساتھ پانچ لاکھ روپے بھی حکومت مدھیہ پردیش کی جانب سے دئے جائیں گے ، عبد الصمد کو قبل بھی ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ، غالب ایوارڈ ، دوحہ قطر عالمی ایوارڈ کے علاوہ مختلف ریاستوں کی اکادمیوں سے متعدد ایوارڈ مل چکے ہیں ۔ عبد الصمد کے اب تک 12 ناول اور افسانوں کے 8 مجموعے شائع ہوچکے ہیں ۔ عبد الصمد میرے معاصر افسانہ نگار اور گہرے دوست ہیں ان کو میں اس وقت سے جانتا ہوں ، جب وہ پٹنہ نہیں آےء تھے ۔ بہار شریف کے ایک محلہ "محل پر ” میں رہتے تھے لیکن انہوں نے افسانہ نگاری شروع کردی تھی ۔ جب پٹنہ آئے تو میرے بہت اچھے دوست بن گےء ، وہ مجھ سے عمر میں بڑے ہیں اور افسانہ نگاری میں بھی ۔ شائد یہ ہی وجہ ہے کہ میں انہیں سدا "صمد بھائی ” ہی کہتا ہوں ۔ کل بھی کہتا تھا اور آج بھی کہتا ہوں ۔
وہ مجھے ملاقات کے ابتدائی دنوں سے ہی اچھے ، سچّے اور مخلص انسان لگے تھے، لہذا یہ سچ ہے کہ میں ان کو بعض سینئر افسانہ نگاروں سے بھی زیادہ اہمیت دینے لگا تھا۔ میرے اور عبد الصمد بھائی کے تعلقات کو اب تقریباً نصف صدی کا عرصہ گزر گیا ہے۔ انسان کی زندگی اور تعلقات میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں ، لیکن ہمارے تعلقات از ابتدا تا حال خوشگوار ہیں ۔ مجھے یاد نہیں آتا ہے کہ عبد الصمد صاحب اور میرے درمیان کبھی کسی بات کو لیکر رنجش یا دشمنی ہوئ ہو۔۔۔ وہ سدا میرے دوست اور بھائی ہی رہے اور آج بھی ہیں ۔
عظیم آباد جو علم و ادب کا ایک بڑاگہوارہ رہا ہے اور آج بھی ہے ، تاہم یہاں ادبی چشمک کی بھی شاندار اور مضبوط روایت رہی ہے ۔ سازشیں بھی ادبی سفر میں ساتھ ساتھ چلتی ہیں ۔۔۔۔ کسی کو بھی آگے بڑھنے سے روکتی ہیں ، راہ میں کانٹے بچھاےء جاتے ہیں ، کانٹوں میں گھسیٹا جاتا ہے اور انگاروں پر چلنے کے لیےء مجبور کیا جاتا ہے ۔ ان کے ساتھ یہ سب عمل زیادہ ہوتا ہے جو اہل علم اور باصلاحیت ہوتے ہیں ، باشعور اور باکمال ہوتے ہیں اور جن کے آگے بڑھنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں ۔
ماضی میں باصلاحیت لوگوں کی قدر کی جاتی تھی ، ان کا سماج کے لوگ احترام بھی کرتے تھے ، لیکن آج کی زندگی میں حالات یکسر مختلف ہوگئے ہیں ۔ آج ان کی مخالفت زیادہ ہوتی ہے جو اہل علم اور صاحب ہنر ہوتے ہیں ۔ جن کے اندر صلاحیتیں زیادہ ہوتی ہیں ، آگے بڑھنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں ، چناں چہ میرے ساتھ یہ ہی ہوا اور آج بھی ہورہا ہے اور عبدالصمد بھائی کے ساتھ بھی وہی ہوا اور زیادہ ہی ہوا ۔۔۔۔۔ آپ میں سے بیشتر حضرات اس بات سے واقف ہوں گے کہ عبدالصمد صاحب بہار کے وہ پہلے اردو کے ایسے قلم کار ہیں جن کو ان کی ادبی خدمات کے لیےء ساہتیہ اکادمی دہلی نے 1990 ء میں ایوارڈ کے لیےء منتخب کیا تھا اور یہ ایوارڈ ان کو ان کے پہلے ناول ” دو گز زمین ” کے لیےء دیا گیا تھا ، جس کی اشاعت 1988ء میں عمل میں آئی تھی ۔ اس ناول سے قبل ان کے افسانوں کے دو مجموعے شائع ہوچکے تھے ۔ جن کی تاریخی ترتیب حسب ذیل ہے :
1 بارہ رنگوں والا کمرہ 1980
2 پس دیوار 1983
لیکن جب عبدالصمد صاحب کو ان کے ناول "دو گز زمین ” پر ساہتیہ اکادمی کا ایوارڈ ملا تو ان کے بیشتر معاصر افسانہ نگاروں کو خوشی نہ مل کر کرب کی سوغات ملی تھی ۔ لیکن چند باظرف افسانہ نگار اور صاحب علم حضرات ایسے بھی ضرور تھے جن کو اس بات کی خوشی تھی کہ بہار کے کسی اردو کے فنکار کو پہلی مرتبہ یہ اعزاز میسّر آیا ہے ، ایسے ہی چند ناموں میں ایک نام میرا بھی تھا ، مخالف ماحول اور نا موافق حالات میں مسرت کی شمع روشن کرنا کوئ معمولی بات نہیں ہوتی ہے ۔ لیکن میں نے حوصلے سے کام لیکر اس وقت فرض اور محبت کی ، آگے بڑھ کر ایک ایسی شمع روشن کی تھی جو عظیم آباد کی تاریخ میں مثبت فکر اور تعمیری ذہن کی گواہ بنی ۔۔۔۔۔میں نے حلقہء ادب بہار کی جانب سے عبدالصمد صاحب کی ادبی خدمات کا نہ صرف اعتراف کیا تھا بلکہ ان کے خلاف چلنے والی ان تمام منفی اور سر پھری سازشوں کو بھی جڑ سے اکھاڑ پھینکا تھا جو عظیم آباد کی مقدس سرزمین کی عظمت و حرمت کو پامال کرسکتی تھیں۔
"دو گز زمین ” سے قبل کسی ایسے ناول نگار کا کوئ ناول ریاست سے شائع نہیں ہوا تھا جس کا تعلق 1970 ء کے بعد سامنے آنے والی نسل کے قلم کار سے تھا ۔ اس سلسلے میں مجھے یہ کہنے دیجئے کہ عبد الصمد کو اس بات کا بھی فخر حاصل ہے کہ 1970 ء کے بعد منظر عام پر آنے والے افسانہ نگاروں میں وہ پہلے ایسے افسانہ نگار ہیں جنہوں نے افسانہ نگاری کے علاوہ ناول کی جانب پہل کی تھی اور ان کی یہ کوشش کامیاب بھی ہوئ تھی اور ان کو ساہتیہ اکادمی دہلی نے 1990 کے لیےء اردو ادب کا ساہتیہ اکادمی ایوارڈ دیا تھا ۔ اس کے بعد تو جیسے بہار کے فن کاروں کے درمیان ناول نگاری کا مقابلہ شروع ہوگیا تھا ۔ لیکن تخلیقی ادب کا ساہتیہ اکادمی ایوارڈ اب تک بہار کے دو ہی تخلیقی قلم کاروں کو مل سکا ہے ۔ عبد الصمد سے سینئر افسانہ نگاروں میں الیاس احمد گدّی کو اور ہم عصر افسانہ نگاروں میں حسین الحق کو ۔۔۔۔۔الیاس احمد گدّی کو ان کے ناول ” فائر ایریا ” کے لیےء اور حسین الحق کو ان کے ناول ” اماوس میں خواب ” کے لیےء یہ ایوارڈ دیا گیا ہے ۔۔۔

الیاس احمد گدی کے ناول کا موضوع چھوٹا ناگپور میں کوئلے کے کان میں کام کرنے والے مزدوروں کی زندگی کی غربت و افلاس کے علاوہ ان کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات و حادثات اور خطرات تھے ۔ ان کا درد ، کرب اور گھٹن تھا ، جبکہ حسین الحق کے ناول کا منظر نامہ سیاسی سطح پر بدلتے ہوےء ناموافق اور غیر یقینی صورت حال کے بطن سے پیدا ہونے والی بے یقینی اور عدم تحفّظ کا احساس ہے ۔ عبد الصمد صاحب کے ناول کا موضوع تقسیم ملک سے پیدا ہونے والی بے چینی ، ہجرت کا کرب اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی نفسیاتی پیچیدگیاں اور انتشار ہے ۔
عبد الصمد صاحب اردو کے آدمی نہیں ہیں ۔ بنیادی طور پر وہ پولیٹیکل سائنس کے آدمی ہیں اور اسی سبجکٹ کے وہ پروفیسر بھی رہے ہیں ۔ ان کو سیاست سے بھی گہری دلچسپی رہی ہے ، ایک زمانے میں جب لالو پرساد یادو بہار کے وزیر اعلیٰ تھے تو انہوں نے عبد الصمد صاحب کو "اردو مشاورتی کمیٹی ” کا چیرمین بنایا تھا ۔ تب میں بھی اس کی مجلس عاملہ کا رکن تھا ۔ انہیں دنوں میں اور عبد الصمد صاحب بہار اردو اکادمی کی مجلس عاملہ کے بھی رکن تھے ۔
میں ان دنوں انجمن ترقی اردو بہار کا سکریٹری بھی تھا ، انجمن کو حکومت سے صرف دو لاکھ روپےء بطور گرانٹ ملتے تھے ۔ اردو کے فروغ کا کام کرنے میں تب ہم لوگوں کو بہت مشکل پیش آتی تھی ۔ پروفیسر عبد المغنی صاحب اکثر مجھ سے یہ کہا کرتے تھے کہ آپ اپنے دوست عبدالصمد سے بات کیجیےء کہ وہ وزیر اعلیٰ سے انجمن کے ایک وفد کی ملاقات کا ٹائم مقرر کرادیں ۔ میں نے یہ بات عبدالصمد صاحب سے کہی اور انہوں نے وزیر اعلیٰ سے بات کرکے وفد کی ملاقات کے لیےء تاریخ اور وقت مقرر کرادیا ۔ لوگوں کو معلوم ہوا تو انجمن کے مخالف گروپ نے زبردست مخالفت شروع کردی ، لیکن اس مہم میں اللہ کا شکر ہے کہ مخالفین کامیاب نہ ہوئے اور انجمن ترقی اردو بہار کا ایک مختصر وفد اس وقت کے وزیر اعلیٰ شری لالو پرساد سے ملا ، عبد الصمد صاحب بھی انجمن کے وفد میں دیگر لوگوں کے علاوہ شامل تھے ۔ یہ وفد پروفیسر عبدالمغنی صاحب کی قیادت میں ملا تھا ، لیکن جب گفتگو شروع ہوئ تو پروفیسر عبدالمغنی صاحب صرف اردو زبان کو بہار میں درپیش مسائل پر ہی گفتگو اور مطالبات پیش کررہے تھے ۔ انجمن کی گرانٹ میں اضافہ کے تعلق سے کوئی گفتگو یا مطالبہ نہیں کررہے تھے ، تب میں نے بہت ہمت کرکے وزیر اعلیٰ سے یہ بات کہی تھی کہ :
سر ! انجمن ترقی اردو بہار کی سالانہ گرانٹ صرف دو لاکھ ہے ۔ کام کرنے میں بہت دشواری پیش آتی ہے ، اس میں کچھ اضافہ کردیں ۔ ” تب لالو جی نے میری طرف دیکھ کر مجھ سے سوال کیا تھا : "کتنا بڑھادوں ؟؟ میں نے کہا تھا : سر تین لاکھ کردیں ۔ انہوں نے میری طرف اور عبد الصمد صاحب کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا تھا اور وہاں موجود حکومت بہار کے اس وقت کے چیف سکریٹری کو یہ حکم دیا تھا کہ انجمن ترقی اردو کی گرانٹ میں اضافہ کرتے ہوئے اسے تین لاکھ نہیں ، بلکہ چار لاکھ کردیا جاےء اور اس طرح ہم لوگوں کو امید سے بڑی کامیابی مل گئ تھی ، جس میں عبد الصمد صاحب کا کلیدی کردار تھا ۔ عبد الصمد صاحب اور میرے تعلقات کو خراب کرانے کے لیےء عظیم آباد کے شر پسند دانشوروں نے ہمیشہ بھر پور کوششیں کیں لیکن اپنی کوششوں میں وہ کبھی کامیاب نہ ہوےء اور ہم لوگوں کے دل کی سرزمین پر محبت اور خلوص کا پودا سدا سرسبز و شاداب ہی رہا ۔ عبد الصمد صاحب واقعئ ایک نیک اور اچھے انسان ہیں ساتھ ہی بالکل بے ضرر انسان ہیں ۔ وہ دوسروں کو نقصان پہنچانے کا تو تصوّر بھی اپنے دل میں نہیں کرسکتے ہیں ۔ ایسا نیک ، شریف ، ایمان دار ، متقی اور پرہیز گار بلکہ عبادت گزار انسان اس زمانے میں کہاں ملتا ہے ؟
عبد الصمد صاحب ، آج بھی بہت اچھے افسانے اور ناول لکھ رہے ہیں ، کافی فعال اور متحرک ہیں ۔ ساہتیہ اکادمی ایوارڈ ملنے کے بعد بھی وہ کہیں ٹھرے اور رکے نہیں ہیں ۔ مذکورہ بالا کتابوں کے بعد بھی ان کی مختلف کتابیں زیور طبع سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آچکی ہیں ۔ اپنے خاکوں کے مجموعے کا انتساب انہوں نے جن چند لوگوں کے نام کیا ہے ان میں ایک نام میرا بھی ہے ، جو ان کی مجھ سے محبت اور خلوص کے رشتے پر مہر تصدیق ثبت کرنے کے لیےء کافی ہے ۔
عبد الصمد صاحب کی جو کتابیں میری ذاتی لائبریری میں موجود ہیں وہ اوپر ذکر کیے گئے افسانوں کے دو مجموعے :
بارہ رنگوں والا کمرہ اور پس دیوار اور ناول "دو گز زمین ” کے علاوہ درج ذیل ہیں :
سیاہ کاغذ کی دھجیاں ، سال اشاعت 1996 , میوزیکل چئیر 2002 , آگ کے اندر راکھ 2008 , ناول میں دو گز زمین کے علاوہ : "مہاتما ” 1992 , خوابوں کا سویرا 1996 , "مہا ساگر ” 1999, "دھمک ” 2004 , "بکھرے اوراق ” 2010 وغیرہ ۔۔۔۔۔
عبد الصمد ایک ایسے باکمال اور ذہین افسانہ نویس اور ناول نگار ہیں جو اپنی تخلیقات میں اعلیٰ اقدار و افکار کی کامیاب پیش کش کے ساتھ ساتھ خوب صورت اور درست زبان بھی لکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ ان کے تعلق سے جو لوگ بھی یہ کہتے ہیں کہ عبد الصمد کمزور زبان لکھتے ہیں چوں کہ وہ اردو کے آدمی نہیں ہیں ، ان سے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ عبد الصمد صاحب خوب صورت ، تخلیقی اور نامیاتی زبان لکھتے ہیں ، وہ جو زبان لکھتے ہیں وہی کہانی کی زبان ہوتی ہے ، اس سلسلے میں اگر یہ کہا جاےء تو شائد غلط نہ ہوگا کہ انہوں نے اسی زبان کا اپنی تخلیقات میں استعمال کیا ہے جو پریم چند ، بیدی اور منٹو کی زبان تھی اور بہار کے افسانہ نگاروں میں انہوں نے سھیل عظیم آبادی اور شین مظفر پوری کی تخلیقی زبان کی مثبت روایت کی توسیع کی ہے ۔
فخرالدین عارفی
محمد پور ، شاہ گنج ۔ پٹنہ 800006 (بہار )