مولانا غلام محمد وستانوی : علم و خدمت کا درخشاں چراغ

اسلم رحمانی

زمانہ بڑی بے نیازی سے اپنے برگ و بار سمیٹتا ہے، موسموں کے تغیر میں رنگ بدلتے ہیں، اور زمین اپنی گود میں وہ گوہر چھپا لیتی ہے جن کی چمک سے عہد جگمگاتے تھے۔ وہ جن کی پیشانیوں پر علم کی روشنی، دلوں میں اخلاص کی حرارت اور قدموں میں خدمتِ دین کی لگی لپٹی تھی، وہ خاموشی سے رخصت ہو جاتے ہیں۔لیکن زمانہ ان کے بعد بھی ان کے نام کا ورد کرتا ہے، ان کی راہوں پر چلنے والوں کے قافلے بنتے ہیں۔ایسا ہی ایک چراغ، علم و عمل کا، اخلاص و ایثار کا، حضرت مولانا غلام محمد وستانویؒ کی صورت میں ہم سے رخصت ہو گیا۔ایسا چراغ جو نہ صرف ایک ادارے کی بنیاد تھا بلکہ ایک فکر، ایک تحریک اور ایک روشن روایت کا استعارہ بھی تھا۔

مولانا غلام محمد وستانوی : علم و خدمت کا درخشاں چراغ
مولانا غلام محمد وستانوی : علم و خدمت کا درخشاں چراغ

مولاناؒ نے یکم جون 1950ء کو گجرات کے سرسبز گاؤں کوساڑی میں آنکھ کھولی، اور جلد ہی ان کے خاندان نے وستان کا رخ کیا۔ وہیں کی خاک سے وہ جُڑ گئے، وہیں کے مٹی سے نسبت اختیار کی، اور وہیں کی فضاؤں میں ان کا نام ہمیشہ کے لیے گونجنے لگا”وستانوی”۔ان کی علمی اُڑان چھوٹے سے مدرسے سے شروع ہوئی، لیکن اس پرواز کا دائرہ وقت کے ساتھ اتنا وسیع ہوتا گیا کہ وہ پورے ملک کے تعلیمی افق پر چھا گئے۔ کوساڑی میں قرآنِ کریم کا حفظ، بروڈہ میں ابتدائی تعلیم، پھر دار العلوم فلاح دارین میں آٹھ سالہ علمی تربیت، اور آخر کار مظاہر علوم سہارنپور میں بخاری شریف کا درس… یہ سفر کسی عام طالب علم کا نہیں، ایک درویشِ علم کا سفر تھا، جو علم کو صرف جاننے کے لیے نہیں، جینے کے لیے پڑھتا تھا۔وہ صرف عالِم نہیں تھے، وہ صاحبِ نسبت بزرگ بھی تھے۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلویؒ کے دامنِ تربیت سے فیضیاب ہوئے، پھر حضرت مولانا قاری صدیق احمد باندویؒ کے خلیفہ و مجاز بنے۔ اُن کے اندر علم کی گہرائی کے ساتھ سلوک کی نرمی، اور تقویٰ کی لطافت کے ساتھ حکمت کی پختگی تھی۔

مولاناؒ کی بصیرت کا سب سے بڑا مظہر 1979ء میں سامنے آیا، جب انہوں نے اکل کوا کی سرزمین پر "جامعہ اشاعت العلوم” کی بنیاد رکھی۔ یہ کوئی عام مدرسہ نہ تھا۔یہ ایک خاموش انقلاب کی تمہید تھی۔ چھ طلبہ، ایک استاد اور بے سروسامانی کے عالم میں جو چراغ روشن ہوا، وہ آج ایک علم کا مینار بن چکا ہے، جس کی روشنی میں نہ صرف دینی علوم کا اجالا ہے، بلکہ عصری تعلیم کی روشنی بھی ہے۔ اسلامی اصولوں کے دائرے میں رہتے ہوئے عصری تقاضوں کا جواب دینا مولاناؒ کا وہ کارنامہ ہے جس پر کئی نسلیں ناز کریں گی۔مولاناؒ کی شخصیت میں ایک ایسی جامعیت تھی جو بہت کم لوگوں میں دیکھی جاتی ہے۔ وہ استاد بھی تھے، منتظم بھی؛ فقیہ بھی تھے، مصلح بھی؛ صوفی بھی تھے، صاحبِ تدبیر بھی۔ ان کے ہاتھوں سے ادارے بنتے رہے، ان کے دل سے دعائیں نکلتی رہیں، اور ان کی آنکھوں سے امت کے درد کی نمی جھلکتی رہی۔ان کا نام مجلس شوریٰ دارالعلوم دیوبند کی فہرست میں تھا، لیکن ان کا دل عام انسانوں کے ساتھ دھڑکتا تھا۔ وہ منصب پر فائز تھے مگر منصب کے غرور سے پاک، وہ قائد تھے مگر خادم کی سی عاجزی کے ساتھ۔ ان کی موجودگی سراپا سکون تھی، ان کی خاموشی میں بھی فہم کی گونج سنائی دیتی تھی۔اور اب…وہ جا چکے ہیں۔اکل کوا کی فضاؤں میں ایک عجیب سا سناٹا ہے، جامعہ اشاعت العلوم کے صحن میں ہوا رک سی گئی ہے، وہ درخت جن کے سائے تلے مولاناؒ نے طلبہ کی دعائیں سنی تھیں، آج خاموش کھڑے ہیں۔جیسے وہ بھی رو رہے ہوں۔

مولانا غلام محمد وستانویؒ نہ صرف دینِ اسلام کی تبلیغ و اشاعت میں گراں قدر خدمات انجام دیں، بلکہ ایک ایسے تعلیمی ماڈل کو فروغ دیا جو "قدیم نافع اور جدید صالح” کی حقیقی ترجمانی کرتا ہے۔ آپ جامعہ اسلامیہ اشاعت العلوم، اکل کوا کے بانی ہیں، جو آج بھارت کا ایک ممتاز دینی و عصری تعلیمی ادارہ بن چکا ہے۔

تعلیمی بصیرت اور وژن:مولانا غلام وستانوی نے 1979ء میں جس ادارے کی بنیاد رکھی، وہ محض ایک مکتب تھا، جہاں ابتدائی طور پر صرف چھ طلبہ اور ایک معلم تھے۔ لیکن مولانا کی دوربین نگاہوں نے اس معمولی آغاز میں مستقبل کی ایک عظیم الشان جامعہ کا نقشہ دیکھ لیا تھا۔ آپ نے نہ صرف مکتب کو مدرسہ، مدرسے کو دارالعلوم، اور دارالعلوم کو ایک ہمہ گیر جامعہ میں بدلنے کا خواب دیکھا، بلکہ شبانہ روز محنت سے اس خواب کو حقیقت میں بھی بدل کر دکھایا۔ آپ کا تعلیمی وژن خالص اسلامی اصولوں پر مبنی ہونے کے ساتھ ساتھ زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ بھی تھا۔

مولانا وستانوی کی سب سے نمایاں دینی خدمت یہ ہے کہ آپ نے دینی اور عصری علوم کو ایک ساتھ لے کر چلنے کا عملی نمونہ پیش کیا۔ آپ کا نظریہ یہ تھا کہ ایک مسلمان صرف مولوی یا صرف ڈاکٹر نہ بنے، بلکہ وہ ایسا عالم بنے جو جدید علوم سے بھی آشنا ہو، یا ایسا ماہرِ فن بنے جو دینی شعور سے بھی مالامال ہو۔ اسی نظریہ کے تحت جامعہ اشاعت العلوم میں درس نظامی کے ساتھ ساتھ انجینئرنگ، طب، فارمیسی، کمپیوٹر سائنس، اور دیگر عصری علوم کی اعلیٰ تعلیم دی جاتی ہے۔

ادارہ سازی اور تعلیمی انفرااسٹرکچر:مولانا وستانوی کی دینی خدمات میں ادارہ سازی ایک عظیم کارنامہ ہے۔ آپ نے نہ صرف ایک جامعہ قائم کی، بلکہ اسے ایک ایسا ہمہ گیر تعلیمی نیٹ ورک میں بدل دیا، جس میں سینکڑوں اساتذہ، ہزاروں طلبہ اور متنوع تعلیمی و تربیتی شعبے شامل ہیں۔ جامعہ کے تحت متعدد اسکول، کالجز، اسپتال، تکنیکی مراکز، کمپیوٹر انسٹی ٹیوٹ، اور ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز قائم کیے گئے۔ اس انفرااسٹرکچر کے ذریعے آپ نے دین کو محض درسگاہوں تک محدود نہیں رکھا، بلکہ اسے سماج کی رگ رگ میں اتارنے کی کوشش کی۔

فلاحی و سماجی خدمات:مولانا وستانوی نے دین کی تعلیم کو محض عبادات اور معلومات تک محدود نہیں رکھا، بلکہ اسے سماجی تبدیلی اور فلاحی عمل سے جوڑ دیا۔ جامعہ کے تحت مختلف سماجی رفاہی کام کیے گئے، جن میں مفت طبی کیمپ، تعلیمی اسکالرشپ، بیواؤں اور یتیموں کی امداد، قدرتی آفات میں ریلیف ورک، اور غریب طلبہ کے لیے خصوصی پروگرام شامل ہیں۔ آپ کی دینی بصیرت نے یہ ثابت کیا کہ دین اسلام محض فرد کی اصلاح کا نام نہیں بلکہ ایک مکمل سماجی نظام کی تشکیل کا داعی ہے۔

نئی نسل کی تربیت و رہنمائی:جامعہ اشاعت العلوم کا ایک امتیازی پہلو یہ بھی ہے کہ یہاں کے طلبہ کو نہ صرف نصابی تعلیم دی جاتی ہے بلکہ تربیت، کردار سازی اور دینی حمیت کے جذبے سے بھی آراستہ کیا جاتا ہے۔ مولانا وستانوی کی رہنمائی میں جامعہ کے طلبہ نہ صرف حافظ، قاری، مفتی اور فاضل بنے، بلکہ دین سے وابستہ انجینئر، ڈاکٹر، وکیل اور معلم بھی پیدا ہوئے۔ یہ وہ خواب تھا جسے مولانا نے ایک ادارے کی صورت میں تعبیر عطا کی۔

علمی خدمات و تربیتی نصاب:مولانا غلام وستانوی نے طلبہ کی علمی سطح بلند کرنے کے لیے کئی طرح کے اقدامات کیے۔ جامعہ کے نصاب میں دینی و عصری کتب کے ساتھ ساتھ اخلاقی و تربیتی مضامین کو بھی شامل کیا۔ درس نظامی کے ساتھ بی اے، ڈی ایڈ، ایل ایل بی جیسی ڈگریاں دلوانے کا انتظام کیا گیا۔ اس طرح دین و دنیا کا امتزاج ایک عملی شکل میں نظر آنے لگا۔مولانا غلام محمد وستانویؒ کی دینی خدمات کا دائرہ محض تعلیم تک محدود نہیں رہا، بلکہ آپ نے دین کو معاشرت، معیشت، صحت، تربیت، فلاح اور اصلاح کے ہر شعبے میں زندہ کیا۔ آپ کی خدمات کا سب سے بڑا ثبوت جامعہ اشاعت العلوم اکل کوا ہے، جو آج بھی ان کے خوابوں، قربانیوں، اور فکر کا عملی نمونہ ہے۔ آپ 4/ مئی 2025ء کو ہمیشہ کےلئے اس دار فانی سے داربقا کی طرف کوچ کر گئے۔لیکن جو چراغ عشق سے جلے ہوں، وہ فنا نہیں ہوتے؛ وہ چراغ قلوب میں منتقل ہو جاتے ہیں، اور نسل در نسل روشنی بانٹتے رہتے ہیں۔ مولانا غلام محمد وستانویؒ کا کام، ان کی فکر، ان کے ادارے، ان کے شاگرد، اور ان کی دعائیں۔یہ سب اس بات کی گواہی ہیں کہ وہ رخصت ہو کر بھی باقی ہیں۔

٭٭٭

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare