امارتِ شرعیہ پٹنہ کے قدیم و مخلص کارکن
مولانا محمد ادریس قاسمی ؒ
تحریر: بدرالاسلام قاسمی
استاذ جامعہ امام محمد انور شاہ دیوبند
وفات کی اطلاع
مؤرخہ ۲۰؍جون ۲۰۲۴ء بروز جمعرات دوپہر بارہ بجے کے قریب بذریعہ فون معلوم ہوا کہ ہمارے آبائی وطن ضلع جامتاڑا ، جھارکھنڈ کے معروف عالم دین، سنجیدہ اور متواضع شخصیت، امارت شرعیہ کے قدیم کارکن اور والد گرامی حضرت مولانا مفتی محمد اسلام قاسمی علیہ الرحمہ کے دیرینہ رفیق، محترم جناب مولانا محمد ادریس قاسمی علیہ الرحمہ انتقال کر گئے ہیں۔ زبان پر کلماتِ استرجاع نہایت حیرت و استعجاب کے ساتھ ادا ہوئے، کیوں کہ ان کی صحت کے حوالے سے کوئی بات قابلِ تشویش نہ تھی، کچھ دنوں پہلے ان سے فون پر بات بھی ہوئی تھی، والد گرامی کی زیر ترتیب سوانح کے لیے اپنا قیمتی مضمون بھیج کر انھوں نے راقم کو نہایت مخلصانہ و مشفقانہ دعائوں سے نوازا تھا۔ اس وقت حاشیہ خیال میں بھی یہ بات نہ تھی کہ وہ ہمیں یوں اچانک چھوڑ جائیں گے، لیکن کتنی ہی کوشش کر لیں اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ یہی نظامِ کائنات ہے۔ شمس و قمر کا طلوع و غروب، لیل و نہار کی یہ گردش، ارض و سما کی یہ پیہم موسمی تبدیلیاں، کائنات کے ذرّے ذرّے کا ہمہ وقت تغیر اس کی فنا اور بے ثباتی کا اشارہ ہوتا ہے، لیکن ہم اپنی دنیوی، معاشرتی، معاشی اور دیگر مصروفیات کی بنا پر اس جانب کما حقہ متوجہ نہیں ہوپاتے، لیکن جب کوئی اپنا اس دنیائے فانی کو چھوڑتا ہے تو اس کی بےثباتی اور اللہ کے اس نظام پر پھر سے یقین بڑھ جاتا ہے۔
بچپن کی کچھ یادیں اور والد گرامی سے مرحوم کا تعلق
’’حب الوطن من الإیمان‘‘ حدیث نہ سہی، لیکن انسانی فطرت کی ترجمانی کرتا ہوا ایک بہترین مقولہ ہے۔ یقیناً انسان کو اپنے وطن سے محبت ہوتی ہے، اُس کی گلیاں، اُس کے رستے، وہاں کا ماحول، وہاں کی آب و ہوا، وہاں کا ماحول، تہذیب و تمدن اور طرزِ معاشرت انسان کو اپنی جانب ہمیشہ کھینچتا ہے۔ یوں تو راقم کی پیدائش ۱۹۸۶ء کے اخیر میں سرزمین علم و عرفان ’’دیوبند‘‘ میں ہوئی، ہمیں فطری طور پر بچپن میں اس سرزمین سے اُنسیت تھی ، شعور پختہ ہوا تو اس سے محبت ہوگئی، اوریہ جذبہ تاحیات رہے گا، بلاشبہ یہاں کے لوگوں نے ہمیں کبھی بھی ’’پردیسی‘‘ کا احساس نہ ہونے دیا، ہم دیارِ غیر میں تھے لیکن ’’اجنبیت‘‘ نہ تھی، خوشی و غم میں لوگوںکی آمد و رفت ہوتی، زندگی کے ہر نشیب و فراز میں باہمی ملاقات معمول کا حصہ رہیں۔ یہی حال والد گرامی علیہ الرحمہ کا بھی تھا، انہوں نے بھی اس سرزمین سے کسب ِ فیض کیا، پھر مادرِ علمی کی خدمت کی، اور اپنی شبانہ روز جدوجہد کے عظیم مرکز ’’ دارالعلوم وقف دیوبند‘‘ کو تاحیات اپنے خونِ جگر سے سینچا، یقیناً اِس سرزمین کے تعلق سے ان کے جذبات راقم کے جذبات سے کہیں بڑھ کر تھے، لیکن تقاضۂ فطرت کہ اگر انہیں سرزمین دیوبند سے محبت تھی تو اپنے آبائی وطن ’’بہار‘‘ (موجودہ جھارکھنڈ) سے عشق تھا، اگر دیوبند ان کی امیدوں کا مرکز تھا تو مادرِ وطن سے ان کے بچپن کی یادیں وابستہ تھیں، وہاں کے لوگ، وہاں کی تنگ گلیاں، کچے رستے انہیں دنیا جہاں میں سب سے زیادہ عزیز تھے، یہی وجہ ہے کہ ہم نے جب سے شعور سنبھالا ہمیشہ انہیں سال میں ایک یا دو مرتبہ ضرور گائوں جاتے دیکھا۔ وہ وہاں جا کر اپنی والدہ محترمہ کی دعائیں لیتے اور مقامی لوگوں سے تعلقات نہایت مضبوط اور مستحکم رکھتے ، حتی کہ ان کی ہر خوشی اور غم کے موقع پر وہ حتی الوسع دامے، درمے، قدمے ، سخنے ساتھ ہوتے۔
تمہید ذرا طویل ہوگئی، اس کے لیے معذرت! ہم جب بھی چھٹیوں میں والدین کے ساتھ گائوں جاتے تو والد گرامی کے کچھ احباب کا تقریباً روز گھر میں آنا ہوتا، ہم بچوں کو اتنا شعور کہاں تھا کہ کون کس مقام کا حامل ہے، ہم تو دیوبند کی قصباتی زندگی سے نکل کر دیہاتی زندگی کا لطف لیتے،کبھی کھیت کھلیان فتح کرتے،کبھی ندیاں اور تالاب سَر کرنے کی کوشش رہتی، تو کبھی گائے ، بیل ، بکری اور بطخ ہماری توجہ کا مرکز بنتے۔ والد گرامی کی زبان سے جو نام اُس دوران ہمیشہ سنے ان میں چند نام یہ تھے: مولوی مسعود، مولوی ادریس، مفتی قمرالزماں، حافظ عبداللطیف۔ اگرچہ ان کے علاوہ بھی افراد والد گرامی سے ملاقات کے لیے آتے رہتے، لیکن یہ چاروں ان کے لیے بہت خاص تھے۔
جب موبائل انسانی زندگی میں عام ہوا تو ہمیشہ والد گرامی کو علی الصباح ان حضرات سے خبر خیریت لیتے ہوئے پایا، شاید ہی کوئی دن ایسا ہوتا کہ وہ ان حضرات کی خبرگیری نہ کرتے۔
گائوں پہنچتے تو علاقے کے مختلف مدارس و مکاتب کا دورہ ہوتا، کبھی دیوگھر کے مرکزی ادارے ’’دارالعلوم مورنے‘‘ کا رخ ہوتا تو کبھی دیگر مقامات منزلِ سفر بنتے، عموماً یہ احباب ساتھ ہی ہوتے۔ والد گرامی جب وفات سے پانچ سال قبل فالج کے مرض میں مبتلا ہوئے تو دیگر متعلقین کی طرح یہ اَحباب تڑپ اٹھے، باقاعدہ تیمار داری کے لیے دیوبند کا سفر کیا، راقم کو ہمہ وقت تسلی دی، طبیعت کچھ سنبھلی تو گائوں کا سفر بھی ہونے لگا، اس دوران بھی ان مخلص احباب نے ان کی ہمت افزائی میں نمایاں کردار نبھایا۔
مختصر تعارف
محترم جناب مولانا محمد ادریس صاحب مؤرخہ ۱۵؍جمادی الثانی ۱۳۷۹ھ مطابق ۱۶؍دسمبر ۱۹۵۹ء کو موضع نیماڈیہہ، ضلع جامتاڑا، جھارکھنڈ (اُس وقت ضلع دُمکا، بہار) میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم گائوں کے قریب ’’مدرسہ کاشف العلوم الگچواں‘‘ میں حاصل کی، والد مرحوم نے ابتدائی زانوئے تلمذ جس شخصیت کے سامنے طے کیا تھا، اُن کا نام تھا ’’مولوی محمد لقمان‘‘ یہ پہلے قریبی گائوں ’’رام پور‘‘ میں بچوں کو ابتدائی تعلیم سے آراستہ کرتے تھے، گویا ایک مکتب کا نظام جاری تھا، تاہم کچھ دشواریوں کے سبب انہوں نے یہ گائوں چھوڑ دیا، چناںچہ والد مرحوم اپنے تعلیمی سفر ’’میرے اساتذہ، میری درسگاہیں:درخشاں ستارے‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’مولوی لقمان صاحب نے گائوں چھوڑ دیا، تین کیلومیٹر کے فاصلے پر ایک مسلم آبادی موضع ’’الگ چُواں‘‘ ہے وہاں وہ معلّم مقرر ہوگئے، پرانے مکتب کے چند طلبہ جو قرآن شریف ختم کرچکے تھے اور فارسی جماعت میں پڑھنا چاہ رہے تھے وہ اپنے استاذ کے ہمراہ نئے مکتب میں آگئے، چنانچہ ہم چند افراد روزانہ دونوں وقت اپنے گھروں سے پیدل چل کر مکتب جایا کرتے تھے اور سبق میں حاضر ہوتے تھے۔ ‘‘
آگے لکھتے ہیں:
’’حاجی محمد لقمان صاحب نے اس مکتب کی توسیع کی اور اسے مدرسے کی شکل دی، مدرسہ کاشف العلوم الگ چواں ضلع جامتاڑا (جھارکھنڈ) کی شکل میں وہ ادارہ اب بھی قائم و سرگرم ہے، اس مدرسے میں انہو ںنے اپنے لائق و باصلاحیت شاگردوں کو جو دیوبند یا سہارن پور سے فارغ التحصیل تھے تدریس میں لگایا۔ یہ مدرسہ اب مدرسہ ایجوکیشنل بورڈ سے ملحق ہے۔‘‘
یہی حاجی مولوی محمد لقمان صاحب مرحوم محترم جناب مولانا ادریس صاحب ؒ کے بھی استاذ تھے، انہوں نے فارسی کی معروف کتابیں گلستاں اور بوستاں بھی ان سے پڑھی تھیں۔
علاقے میں عربی تعلیم کے لیے کوئی مستند ادارہ نہ ہونے کی وجہ سے مولانا ادریس صاحب نے یوپی کا رُخ کیا، اور سب سے پہلے ضلع مظفرنگر کی معروف دینی درس گاہ ’’مدرسہ خادم العلوم باغوں والی‘‘ میں داخل ہوئے اور عربی اوّل و دوم کی تعلیم حاصل کی، عربی سوم کے لیے ضلع مظفرنگر ہی کی ایک اور قریبی درس گاہ ’’مدرسہ محمودیہ سَروَٹ‘‘ گئے اور آئندہ سال عربی چہارم میں (۱۹۷۵ء میں)اُمّ المدارس دارالعلوم دیوبند میں داخل ہوئے۔ عربی پنجم سے دورۂ حدیث تک کا یہ تعلیمی سفر بحسن و خوبی جاری رہا، اسی دوران والد گرامی سے اُن کا تعلق ہوا، والد مرحوم اُس وقت تکمیل افتاء میں تھے ،وہ ۱۹۷۱ء میں فراغت کے بعد تکمیل ادب اور خوش خطی کے شعبے سے استفادہ کر چکے تھے۔ آئندہ سال یعنی ۱۹۷۶ء میں والد گرامی کومادرِ علمی کی خدمت کا موقع میسر آیا اور وہ حضرت مولانا بدرالحسن قاسمی دربھنگوی (مدیر : الداعی) کے معاون اور خوش نویس کے طورپر ’’الداعی‘‘ سے وابستہ ہوگئے۔ اس دوران مولانا ادریس صاحب مرحوم کی الداعی کے دفتر میں آمد و رفت رہتی، گاہے بے تکلفانہ گفتگو اور گاہے علمی موضوعات۔
۱۳۹۹ھ مطابق ۱۹۷۹ء میں فراغت کے بعد انہوں نے اپنے علمی ذوق کی تسکین کے لیے مزید ایک سال ’’تکمیل تفسیر‘‘ میں لگایا۔
امارتِ شرعیہ سے طویل وابستگی
۱۹۸۱ء میں وہ جھارکھنڈ کی معروف علمی شخصیت، والد مرحوم کے مخلص استاذ گرامی، حضرت مولانا قاری محمد ایوب مظاہری علیہ الرحمہ کی معیت میں امارتِ شرعیہ پٹنہ پہنچے، جہاں فقیہ العصر حضرت مولانا قاضی مجاہدالاسلام قاسمی علیہ الرحمہ نے ان کا انٹرویو لیا۔چناںچہ ۱۹؍ستمبر ۱۹۸۱ء کو وہ امارتِ شرعیہ پٹنہ سے وابستہ ہوگئے۔
وہ بطور مبلغ وہاں سرگرم رہے، صوبۂ جھارکھنڈ کے ضلع گریڈیہہ میں جب امارت شرعیہ کی جانب سے اسکول کے قیام کا فیصلہ کیا گیا تو اُس وقت بھی انہوں نے بڑی کوششیں کیں اور امارت کی جانب سے بھیجے گئے ہر شخص کی مخلصانہ رہبری کرتے رہے۔ چناںچہ امارت شرعیہ پٹنہ کے سابق معاون ناظم اور آل انڈیا ملّی کونسل کے جوائنٹ سکریٹری محترم جناب مولانا ابوالکلام صاحب نے ایک واٹس اپ گروپ میں مرحوم کی تعزیت کچھ یوں کی:
’’بڑے مخلص انسان تھے، 2018ء میں جب امیر شریعت سابع مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی صاحب رحمانی رحمۃ اللہ علیہ نے مجھے قیامِ اسکول کے لیے گریڈیہہ بھیجا تھا تب گریڈہیہ میں ’’امارت پبلک اسکول‘‘ کے قیام کے ابتدائی مرحلہ سے لے کر افتتاحی اجلاس اور بچوں کے داخلہ اور تعلیمی شروعات تک ان کی بڑی مدد مجھے ملی۔ میں پہلی مرتبہ گریڈیہہ گیا تھا، میرے لیے بالکل نئی جگہ تھی ۔ لیکن مولانا نےاپنے حسنِ اخلاق اور سادگی کی وجہ سے مجھے نیاپن کا احساس تک نہیں ہونے دیا۔ وہاں کے اہم لوگوں سے مجھے ملواتے رہے اور میرا تعارف کراتے رہے۔جس کا بڑا فائدہ امارت شرعیہ کے کام کو آگے بڑھانےمیں مجھے ملتا رہا ،مولاناکے وہاں سے چلے آنے کے بعد بھی گاہے بگاہے جب وہ گریڈیہہ آتے تو اسکول ضرور تشریف لاتے، ایسے وہ وہاں کے مقامی ذمہ داران اور علاقہ کے لوگوں میں کافی مقبول تھے۔ایک زمانہ تک وہ دھنباد میں رہ کر امارت شرعیہ سے منسلک رہ کر تنظیمی کام کرتے رہے۔
امارت پبلک اسکول گریڈیہہ جس بلڈنگ میں چل رہا ہے اسکی تعمیر، باؤنڈری، اسی طرح اسکول کیمپس کے بغل میں جناب پرویز صاحب مرحوم کی طرف سے اسپتال کے لیے دی ہوئی زمین کے حصول میں بھی مولانا مرحوم کا اہم رول رہا ،کیوں کہ مولانا مرحوم کا تعلق جناب پرویز صاحب اور جناب حاجی حسین انصاری مرحوم سابق وزیر اقلیتی فلاح حکومت جھارکھنڈ سے بہت گہرا تھا، اسی بنیادپر انہوں نے حضرت مولانا انیس الرحمان قاسمی سابق ناظم امارت شرعیہ اور حضرت مولانا سہیل احمد ندوی رحمۃ اللہ علیہ سابق نائب ناظم امارت شرعیہ سے ملاقات کرائی، وزیر مرحوم نے آئی ٹی آئی کے ہاسٹل اور دوسری دفعہ باؤ نڈری کے لیے فنڈ منظور کیا تھا۔اللہ تعالیٰ مولانا ادریس قاسمی صاحب مرحوم کی مغفرت فرمائے، کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے، اور ان کی خدمات کو قبولیت عطاء کرے ۔ آمین‘‘
امارت شرعیہ پٹنہ سے تقریباً اکتالیس سال وابستگی کے بعد وہ صحت کی خرابی کی وجہ سے ۲۰۲۲ء میں مستعفی ہوگئے۔
آخری مضمون
والد گرامی کی زیرترتیب سوانح کے لیے جب میںنے مرحوم سے مضمون کی درخواست کی تو بڑے خوش ہوئے، دعاؤں سے نوازا، اپنی وفات سے ایک ماہ قبل ہی ۲۲؍مئی ۲۰۲۴ء کو انہوں نے نہایت عمدہ تحریر میں والد گرامی پر اپنا تأثراتی مضمون ارسال فرمایا، نیز دوسری درخواست پر اپنا مختصر تعارف ۴؍جون کو بھیجا۔ غالباً یہ اُن کا آخری مضمون تھا۔
وفات
۲۰۲۲ء سے اپنے گھر پر ہی مقیم تھے، شوگر اور دل کا عارضہ تھا، لیکن طبیعت ایسی تشویش ناک نہ تھی، اسی لیے ان کی وفات نے راقم السطور اور علاقے کے لوگوں بالخصوص علماء طبقے کو کافی متاثر کیا۔ جنازے میں علماء بکثرت شریک ہوئے اور نم آنکھوں کے بیچ انھیں مقامی قبرستان میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔
پس ماندگان
پس ماندگان میں اہلیہ، قاضی محمد اظہر قاسمی (قاضی دارالقضاء جمشید پور، جھارکھنڈ) کے علاوہ دو اور بیٹے ہیں، غالباً چار بیٹیاں ہیں۔ امید ہے کہ ان کے لائق و ہونہار اور باصلاحیت فرزند قاضی محمد اظہر قاسمی مستقبل میں اپنی علمی و سماجی خدمات کی وجہ سے والد مرحوم کے لیے بہترین صدقۂ جاریہ ثابت ہوںگے اور ان کی نیک نامی میں اضافے کا سبب ہوںگے۔
راقم السطور کو اُن کی وہ متواضعانہ، مخلصانہ اور مشفقانہ شخصیت مدّتوں یاد رہے گی، طویل خدمات اور بے داغ زندگی کی وجہ سے لوگ انہیں عرصے تک یاد رکھیں گے۔ ان شاء اللہ
اللہ تعالیٰ مرحوم کی کامل مغفرت فرمائے، ان کی سیئات کو حسنات سے تبدیل فرمائے اور پس ماندگان کو صبر جمیل بخشے۔ آمین یا رب العالمین