حضرت مولانا ولایت علی عظیم آبادی ، تحریک شہیدین کے علمی ترجمان
طلحہ نعمت ندوی
حضرت سید احمد شہید اور حضرت شاہ اسماعیل شہید کی تحریک اصلاح وجہاد اپنے وقت کی اہم تحریک تھی ،یہ صرف جہاد کی تحریک نہیں تھی ،بلکہ معاشرہ کی دینی واصلاحی تربیت اس تحریک کا اساسی مقصد تھا ،ا ن میں بھی خاص طور پر جن چند چیزوں پر خاص توجہ تھی ،ان میں نکاح ثانی ،ابطال بدعت وتردید شرک ،اور سنت کا اہتمام خاص طور پر پیش نظر تھا،اور اس میں اسے بہت حد تک کامیابی بھی ملی۔
مولانا ولایت علی صادق پوری عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ اس تحریک کے اہم بزرگوں میں ہیں ،جنہوں نے حضرت سید صاحب کی وفات کے بعد اسے اپنے خون جگر سے سینچا اور پورے خاندان کو اس نذرکرکے اس کو باقی رکھا۔حضرت شاہ اسماعیل شہید کے بعد پورے جماعت میں انہی کو مرجع کی حیثیت حاصل تھی ،انہوں نے حضرت شاہ اسماعیل سے قریب رہ کر علمی استفادہ بھی کیا تھااور ایسا لگتا ہے کہ ان کی فکر کو جذب کرلیا تھا ۔
حضرت مولانا صادق پوری کے تفصیلی حالات تذکرہ صادقہ میں مولانا عبدالرحیم صادق پوری نے تفصیل سے لکھے ہیں ،اور ان سے پہلے مخزن احمدی اور وقائع احمدی اور منظورۃ السعداء میں بھی ان کے حالات قلمبند کئے گئے تھے۔
حضرت مولانا ولایت علی کو سیدصاحب نے سرحد سے دعوت وتبلیغ کے لئے حیدرآباد بھیج دیا تھا ۔جہاں وہ سید صاحب کی وفات تک مقیم رہے اور تبلیغ کی خدمت انجام دیتے رہے ۔سید صاحب کی شہادت کے بعد تحریک کی ذمہ داری انہیں کے کندھوں پرآپڑی،اور وہاں سے وطن آکر یہاں مقیم ہوئے اور چند سال تحریک کے لئے تیاری کی اور علاقوں کا دورہ کرکے اس کے لئے افراد سازی اور ذہن سازی کرتے رہے ،اور شہر پٹنہ اور صادق پور میں اصلاح وارشاد کی خدمت انجام دیتے رہے ،اس کے بعد سرحد روانہ ہوگئے ۔
تحریک شہیدین سیاسی سے زیادہ ایک سماجی اور اصلاحی تحریک تھی ۔اس کے پیش نظر اصلاح عقائد ،رسوم کی تردید ،قرآن وسنت پر عمل کی دعوت تھی ۔ حضرت مولانا ولایت علی رحمۃ اللہ علیہ نے ان تمام موضوعات پر رسائل لکھے اور خانوادہ ولی اللہ کے کتب ورسائل چھپوا کر تقسیم کروائے ،مولانا عبدالرحیم صاد قپوری کے مطابق حضرت مولانا ولایت علی نے تقریباً سو رسائل لکھے ،وہ ان کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں
’’جناب نے شاہ محمد اسحاق رحمۃ اللہ علیہ نبیرہ مولانا شاہ عبدالعزیز علیہ الرحمہ دہلوی کی خدمت میں ترجمہ قرآن از شاہ عبدالقادر اور رسائل مولانا شاہ اسماعیل شہید کے ارسال کی درخواست کی ،اور جناب شاہ صاحب کے ارسال فرمانے پر پہلے مطبع حسینی لکھنؤ میں ان کے طبع کرانے کی سعی فرمایا ،بعد انکار صاحب مطبع آپ نے زمانہ ورود سیر بنگال کے اس خدمت طبع کو اپنے خلیفہ مولوی بدیع الزماں صاحب بردوانی کے حوالہ فرمایا ،چنانچہ مولوی صاحب نے ایک ٹائپ پریس قیمتی دس ہزار خرید کے بہ کرات مرات تعمیل ارشاد کیا ،پھرتو دیگر مطابع ہند نے بھی بغرض تحصیل زرو مال کتب دینی کے طبع کی طرف توجہ کی ۔آپ نے جہاں جیسی ضرورت دیکھی یا لوگوں نے مسائل دریافت کئے محض تفہیم کی غرض سے مختصر اور عام فہم رسائل قلمبند فرماکر لولوگوں کے حوالہ کئے ،ایسے رسائل کی تعداد سو سے کم نہ ہوگی ،مگر اس وقت صرف چند دستیاب ہوسکیں جو مجموعہ رسائل تسعہ میں شامل ہوسکیں‘‘ ۔(الدر المنثور ،ص ۱۵۴ پٹنہ ۱۹۶۴)
افسوس کہ اب ان کی سو رسائل میں سے چند ہی دستیاب ہیں ،ان میں کچھ کی تو تاریخ مذکور ہے اور معلوم ہے کہ وہ کب لکھی گئیں اور کچھ کی تاریخ نہیں معلوم لیکن اسلوب سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ حضرت سید احمد شہید کی وفات کے بعد ہی لکھی گئی ہوں گی ۔
بہر حال حضرت والا کے دستیاب رسائل میں ایک عربی میں اربعین فی الھدیین ہے ،جس میں حضرت مہدی سے متعلق چالیس احادیث جمع کی گئی ہیں ،ان کے علاوہ اس میں اپنی طرف سے کسی چیز کا اضافہ نہیں ہے ۔
فارسی میں ان کے دو رسائل ملتے ہیں ۔۱،رسالہ عمل بالحدیث ۔۲،رسالہ تبیان الشرک
ان دونوں کا اردو ترجمہ مولانا الہی بخش بڑاکری بہاری کے قلم سے موجود ہے اور دونوں مجموعہ رسائل تسعہ (مطبوعہ مطبع فاروقی دہلی)میں مع ترجمہ شامل ہیں۔ان کے علاوہ ہمیں ان کی کسی اور اشاعت کا علم نہیں۔عربی رسالہ اربعین بھی اسی مجموعہ میں شامل ہے،جو حضرت مولانا عبدالرحیم صادق پوری نے شائع کروایا تھا۔رسالہ تیبان الشرک مع اردو ترجمہ الگ سے بھی ہداہت التوحید کے نام سے مطبع دارالسلطنت کلکتہ سے ۱۳۱۴ھ (۱۸۹۷)میں شائع ہوا تھا۔رسالہ عمل بالحدیث بعد میں الگ سے بھی ایک نئے اردو ترجمہ کے ساتھ عمل بالحدیث مع اردو ترجمہ مسلک اہل حدیث کے عنوان سے شایع ہوا تھا ،جدید ترجمہ مولانا ابوبکر صدیق فیروزپوری نے کیا تھا ،اور مشہور اہل حدیث عالم مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی کے مقدمہ کے ساتھ المکتبہ السلفیہ لاہور سے ۱۳۸۵ھ مطابق ۱۹۶۲ میں شائع ہوا تھا ۔
اردو میں حضرت والا کے حسب ذیل رسائل ہیں
۱۔رسالہ جہاد۔۲۔تیسیر الصلاۃ ۔۳۔رد شرک ۔۴۔رسالہ رد بدعت ۔۵رسالہ دعوت ۔۶شجر باثمر سید احمد ۔۷رسالہ نکاح ثانی
مذکورہ بالا کتابوں میں رسالہ جہاد اب تک کی اطلاع کے مطابق قلمی ہے ،اس کا ذکر ڈاکٹر مظفر اقبال کی بہار میں اردو نثر کا ارتقاء میں ملتا ہے (ص ۴۰۴) انہوں نے اس کے دو قلمی نسخوں کا ذکر کیا ہے ،اسی نام کے ایک منظوم رسالہ کا ذکر بھی ملتا ہے جو صادق پور میں محفوظ تھا ،لیکن مصنف کا نام نہیں معلوم تھا ،اوکینلے نے اس کا انگریزی میں ترجمہ کیاتھا (ہندوستان میں وہابی تحریک،مؤ۲۰۱۰۔ص۳۸۵)
معلوم نہیںکہ رسالہ جہاد اور یہ منظوم رسالہ جہادیہ دونوں ایک ہیں یا الگ الگ ،یہ رسالہ ہماری نظر سے نہیں گذرا ورنہ پوری تحریک کا پس منظر سمجھ میں آتا۔بہ ظاہر نثر ہی میں ہوگا ،کیوں کہ ڈاکٹر مظفر اقبال کی نظر سے گذرا تھا ۔ویسے حضرت مصنف کا توحید میں ایک منظوم طویل قصیدہ بھی ہے ،جس کی وجہ سے قیاسا یہ کہا جاسکتا ہے کہ شاید یہ بھی انہیں کا ہو،اور انہوں نے نظم ونثر دونوں میں اس کے فضائل بیان کئے ہوں۔
رسالہ تیسیر الصلاۃ ۔یہ رسالہ مختصر ہے اور نماز کے اہم مسائل پر مشتمل ہے ،نماز سے قبل طہارت کے مسائل بھی ہیں ،اس میں فقہ حنفی سے ہٹ کر خالص روایت کی روشنی میں مسائل ذکر کئے گئے ہیں اور کہیں کہیں امام شافعی کی رائے کو بھی ترجیح دی گئی ہے۔یہ رسالہ مجموعہ رسائل تسعہ میں بھی شامل ہے ،اس کی پہلی دریافت اشاعت ایک مجموعہ میں ہے جس میں حضرت مصنف کی مذکورہ اردو کتابوں میں رسالہ دعوت ،تیسیر الصلاۃ ،رد شرک اور نکاح ثانی شامل ہیں۔یہ مجموعہ ٹائپ میں حضرت مصنف کی زندگی ہی میں چنسورہ ضلع ہگلی (بنگال)سے ۱۲۵۰ھ (تقریبا ۱۸۳۸)میں شائع ہوا تھا ،شاید یہ وہی پریس ہوگا جس کا ذکر اوپر حضرت مولانا عبدالرحیم صادق پوری کے ذکر میں آیا ہے ۔اس کے سرورق پر مطبع کا نام اس طرح ہے ’’چھاپے خانہ کا نام مطبع احمد ی ،مقام شہر چنچرہ (موجودہ چنسورہ)متعلقہ ضلع ہوگلی ماہ شعبان سنہ ۱۲۵۰ھ ۔اس کے بعد یہ رسالہ مطبع علوی لکھنؤ سے ۱۲۸۴ھ(۱۸۸۶)میں شائع ہوا تھا،اس پر کچھ حواشی زائد نظر آتے ہیں جو پہلے ایڈیشن میں نہیں ہیں ۔تیسری مرتبہ مطبع قیصری پٹنہ سے۱۸۸۸میں شائع ہوا اورچوتھی مرتبہ مجموعہ رسائل تسعہ کے ساتھ غالبا ۱۹۰۰ کے قریب شائع ہوا ۔ اس رسالہ کے ایک قلمی نسخہ کا ذکر بھی پروفیسر قیام الدین احمد نے کیا ہے جو ان کو سورج گڑھ (مونگیر )میں ملا تھا ۔(حوالہ سابق)
مطبع علوی کے اخیر میں خاتمۃ الطبع حسب ذیل الفاظ میں ہے
’’الحمد للہ والمنہ کہ عنایت بے غایت ورحمت بے نہایت پاک پروردگار وحدہ لاشریک لہ اور ہدایت بے نہایت رسول کریم پیغمبر آخر الزماں شفیع عاصیاں کے فیض برکت سے احکام فرائض وسنن ایسے آسان ہوگئے کہ اگلی امتوں کی سی شکلیں سب دور ہوگئیں ،اور عالموں نے وہ سب مسئلے بڑی بڑی کتابوں سے ڈھونڈ ڈھوند کے اردو کرکے سب کو سکھلادئے ،جاہلوں کو عالم بنادئے ،چنانچہ رسالہ مختصر جو موسوم تیسیر الصلاۃ ہے ،تصنیف عالم باعمل فاضل اکمل ،عارف ولی ،مولانا ولایت علی عظیم آبادی قدس اللہ سرہ کا نہایت عمدہ ہے ،اس میں سب مسئلے آسان ڈھونڈ ڈھونڈ کر لکھے ہیں ،کوئی مسئلہ مشکل یا مشہور نہیں رکھا ہے ،جو ذرہ بھی مشکل تھا ،اس کو ترک کردیا ،آسان مسئلہ پر اکتفا رکھی ،تاکہ دقت وتنگی بالکل جاتی رہے ،آسان مسئلہ دیکھ کر لوگ دل سے رجوع کریں ،تکلیف شرع سے گھبرانہ جائیں ۔دریں ولا اس رسالہ کو واسطے ترویج دین کے شفیق زماں ،محب اہل ایماں ،برگزیدہ جہاں ،عبداللہ خاں ،حفظہ الرحمن ،ساکن عظیم آباد نے حسب فرمائش اپنے اول دفعہ بیچ شہر لکھنؤ کٹرہ محمد علی خاں ،مطبع علوی کے باہتمام عاصی محمد علی بخش خاں پیر محمد خاں مغفور کے چھپواکر تیار کرایا ،واسطے مسلمانوں دیندار بھائیوں کے ہدیہ احباب بنایا ۔اللہ تعالی ان کو اجر کامل عطا کرے ۔مالک مطبع اور صاحب فرمائش اور مصحح کو ایمان نصیب کرے ۔۷اپریل ۱۸۶۸ء مطابق ۲ذی الحجہ ۱۲۸۴ہجری‘‘۔
تیسرا رسالہ رد شرک ہے ۔یہ پہلی مرتبہ ہوگلی کے مذکورہ مطبع میں مذکورہ مجموعہ میں شائع ہوا تھا ۔سرورق پر یہ عبارت ہے
’’رد شرک ۔مصنف کا نام مولوی ولایت علی واعظ عظیم آبادی ،سلمہ اللہ تعالیٰ ۔ہندوستان کے رہنے والے عام اور خاص مسلمانوں کی ہدایت کے واسطے تتصحیح سے ہیچ مداں ،خیرخواہ خلق اللہ ،خلق عبداللہ ولد سید بہادر علی عفا اللہ عنہما کے یہ نسخہ چھاپا گیا ‘‘۔
اس کے بعد چھاپہ خانہ کا نام اور اس کی تفصیل ہے جو اوپر گذرچکی ہے ۔
پروفیسر اختر اورینوی کو رد شرک اور تبیان الشرک میں اشتیاہ ہوگیا ہے اور انہوں نے دوسرے کی جگہ پہلے کانام ذکر کردیا ہے ۔
رسالہ دعوت بھی مذکورہ بالادونوں مجموعوں میں موجود ہے ۔ان کے علاوہ کسی اور اشاعت کا علم نہیں ۔
رسالہ نکاح ثانی ۔یہ رسالہ چند صفحات کا ہے ،اور ہگلی کے مذکورہ مجموعہ میں شامل ہے ۔پروفیسر اختر اورینوی اور قیام الدین احمد کو نکاح بیوگان کے نام سے صادق پور میں ایک صفحہ کا ایک رسالہ ملا تھا جس پر مصنف کا نام نہیں تھا ممکن ہے یہی ہوگا ۔(سابق حوالے)
رسالہ شجر باثمر یا شجرہ باثمرہ مجموعہ رسائل تسعہ میں بھی شامل ہے اور پٹنہ سے علاحدہ رسالہ کی شکل میں بھی۱۳۰۷ھ(۱۸۹۵)میںچھپا تھا ۔اس کے سرورق پر حسب ذیل عبارت ملتی ہے ۔
’’الحمد للہ والمنہ کہ شجرہ باثمرہ سیدا حمد صاحب مولفہ جناب حضرت مولانا ولایت علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ صادق پوری عظیم آبادی خلیفہ جناب حضرت سید صاحب موصوف حسب الارشاد بحرالعلوم مولانا عبدالقیوم صاحب مدرس مدرسۃ المسلمین پٹنہ باہتمام تام مولوی محمد صاحب مہتمم مطبع احمدی ۱۳۰۷ھ در مطبع احمدی واقع پٹنہ طبع شد‘‘۔
جہاں تک رسالہ رد بدعت کا تعلق ہے ،یہ رسالہ اب دستیاب نہیں ۔گرچہ حضرت مصنف نے رسالہ رد شرک اردومیں نصف کتاب رد بدعت ہی کے لئے مختص کی ہے لیکن اس کے باوجود اگر یہ موجود ہوتی تو اس کی اپنی اہمیت ہوتی۔پروفیسر اختر اورینوی نے اس کی تمہید کا ایک اقتباس پیش کیا ہے ،جس میں تحریر ہے کہ اس میں دیگر مباحث کے ساتھ حضرت شاہ اسماعیل کی ایضاح الصریح کی توضیح بھی کی گئی ہے ۔ان کے مطابق یہ مولانا عبدالغفار صاد ق پوری کے پا س قلمی تھی جو پہلے ایڈیشن مطبوعہ کلکتہ کی نقل تھی ۔(بہار میں اردو زبان وادب کا ارتقاء ،ص ۴۰۴)لیکن چند ہی سالوں کے بعد جب اس خاندان کے مورخ قیام الدین احمد نے اپنی کتاب مرتب کی تو انہوں نے دستیاب کتابوں میں اس کا ذکر نہیں کیا ،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب غائب ہوچکی تھی ،اختر اورینوی کی تحریر بھی ان کے پیش نظر تھی ،اس حوالہ سے بھی انہوں نے اس کا ذکر نہیں کیا ۔شاید ایسا خیال ہو کہ اس کو کسی اور کا رسالہ سمجھا گیا ہو اورغلطی سے اختر اورینوی سے مولانا ولایت صاحب کی تصنیف کی حیثیت سے اس کا تعارف کرادایا گیا ہو ۔بہر حال اب یہ رسالہ کہیں نظر نہیں آتا ،لیکن پروفیسر اختر اورینوی نے اس کی جو تمہید درج کی ہے وہ بہت اہم ہے اور سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کیسا رسالہ تھا ،اس کے ابتدا میں تحریر ہے
’’بعد اس کے سننا چاہئے کہ کتنے لوگ صراط مستقیم پر بلکہ جناب امام حضرت سیداحمد صاحب پر اعتراض اور نسبت بدعت کی کرتے ہیں ،وجہ یہ کہ مولانا اسماعیل علیہ الرحمہ کا رسالہ ایضاح الحق ہے ،بدعت کے باب میں فارسی زبان میں جو تصنیف فرمایا ،اس کے سمجھنے کی اکثر لوگوں کو لیاقت نہیں،اس سبب اس عاجز سے بدعت کے باب میں آکر پوچھتے اور تنگ کرتے ہیں ،اس واسطے ہندی زبان میں تھوڑی سی تقریر بدعت کی جو آسان اور سہل اور سواء تقریر مولانا ممدوح کے ہے لکھ دیا کہ ہر کسی کے سمجھ میں آوے ،اور آیت سے اس کو مدلل کردیا ‘‘۔(بہار میں اردو زبان وادب کا ارتقاء ،ص ۴۰۴)
اب ہم ان رسائل کے موضوعات اور تحریک سے اس کے تعلق پر روشنی ڈالتے ہیں۔
رد شرک اور تیبان الشرک دونوں رسائل تو معروف ہیں کہ وہ حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب تقویۃ الایمان کا نقش ثانی کہہ سکتے ہیں ۔اس سلسلہ میں مولانا خرم علی بلہوری کی نصیحۃ المسلمین کا ذکر تو آتا ہے لیکن پتہ نہیں ا س رسالہ کی طرف کیوں توجہ نہیں کی گئی جب کہ اغلب یہ ہے کہ یہ رسالہ اس سے پہلے لکھا گیا ہے۔حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ نے تقویۃ الایمان سے پہلے عربی میں رد الاشراک لکھی تھی جس میں شرک وبدعت کی آیات واحادیث یکجا کردی تھیں ،اپنی طرف سے بہت کم کچھ لکھا تھا ،پھر اردو میں اس کے ایک حصہ یعنی باب شرک کی توضیح کی اور اس کا نام تقویۃ الایمان رکھا ،جو بہت مقبول ہوئی ۔حضرت مولانا ولایت علی نے اسی فکر کو آگے بڑھایا اور بدعت وسنت دونوں کی تشریح وتوضیح کی ۔اسی لئے اختر اورینوی کے الفاظ میں اس کو تقویۃ الایمان کامختصر اور واضح خلاصہ کہا جاسکتا ہے۔(حوالہ سابق ،ص ۴۰۲)شاید حضرت انہوں نے فارسی میں تبیان الشرک پہلے لکھی ،اس کے بعد رد شرک لکھی ۔اور اس طرح انہوں نے اس تحریک کی بنیاد مظاہر شرک کا استیصال اور بدعت کے خاتمہ کی فکر کو علمی شکل میں پیش کیا ،اور مسلمانوں نے اس سے فائدہ اٹھایا ۔اگر دونوں کتابیں تبیان الشرک اور رد شرک ایک ساتھ شائع ہوں توان کی فکر کا صحیح اندازہ ہوگا ۔کیوں کہ حضرت مولانا ولایت علی نے ملک کے اہل علم کو سامنے رکھتے ہوئے ان مباحث کو فارسی اور پھر عوام کے لئے سہل اردو میں پیش کیا ،اس لحاظ سے بھی دونوں میں کچھ نہ کچھ فرق ہے۔
تیسیر الصلاۃ بھی بالکل ابتدائی دور کا رسالہ معلوم ہوتا ہے جو اغلب یہ ہے کہ حضرت سید احمد شہید کی زندگی ہی میں یا ان کی وفات کے فورا بعد لکھا گیا ہے ،اس کا موضوع ظاہر ہے کہ نماز کے مسائل ہیں
رسالہ دعوت اور شجر باثمر یہ دونوں رسالے براہ راست حضرت سید احمد شہید سے متعلق ہیں ۔رسالہ دعوت میںا نہوں نے ابتدا میں حضرت سید صاحب کا بہت جامع تعارف کرایا ہے ،یہ رسالہ ان کی زندگی ہی میں لکھا گیا تھا ،حیرت ہے کہ حضرت سید احمد شہید کے سوانح نگاروں سے اتنا اہم ماخذ کیسے چھوٹ گیا کہ کسی جگہ اس کا حوالہ تک نظر نہیں آتا ۔اس کے بعد انہوں نے ہر طبقہ کو سید صاحب کی دعوت وفکر کو قبول کرنے اور ان کی تحریک میں شامل ہونے کی دعوت دی ہے ،اورہر طبقہ کو الگ الگ مخاطب کیا ہے اور سب کو ترغیب دی ہے کہ سید صاحب سے بیعت ہوں ،اور اس راہ کے موانع بھی ذکر کئے ہیں اور وہ کس طرح ان رکاوٹوں کو دور کرسکتے ہیں اس کا بھی ذکر کیا ہے۔الغرض یہ رسالہ آج بھی اپنی تاریخی اہمیت رکھتا ہے اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ سید صاحب اپنے قریبی لوگوں کی نظر میں کیسے تھے اور انہیں کیا رکاوٹیں در پیش تھیں ۔
رسالہ شجر با ثمر میں حضرت سید صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے سلسلہ بیعت کا ذکر ہے ،اسی ضمن میں انہوں نے اذکار واشغال کی تفصیل بھی ذکر کی ہے ،اور تصوف کی تعلیمات بیان کی ہیں۔
ان کا رسالہ عمل بالحدیث کا موضوع نام سے ظاہر ہے ،شجر باثمر میں وہ ایک کامل صوفی نظر آتے ہیں لیکن رسالہ عمل بالحدیث میں وہ قرآن وسنت پر عمل کے داعی دکھائی دیتے ہیں ،کیا یہ ان کے فکر کا تضاد ہے یا ارتقا ء ہے یا ثانی الذکر کو ناسخ اوراول الذکر کو منسوخ تسلیم کیا جائے ۔ایسا کچھ بھی نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وسیع النظر اہل علم کے لئے دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے ۔ان کے عمل بالحدیث کے سلسلہ میں مولانا عبدالرحیم صادق پوری نے لکھا ہے کہ وہ اصلا تو حنفی تھے لیکن جہاں قرآن وسنت کے دلائل راجح نظر آتے تھے وہ ان پر عمل کرتے تھے ۔(تذکرہ صادقہ ،ص ۱۵۵ طبع سوم)
یہی ذوق حضرت شاہ اسماعیل شہید کا بھی تھا،چنانچہ حضرت شاہ صاحب نے رد الاشراک میں رد تقلید پر بھی ایک مستقل باب قائم کیا تھا،اور قرآن وسنت کی طرف دعوت دی تھی ، لہذاحضرت مولانا ولایت علی کے بارے میں یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ انہوں نے شوکانی سے ملاقات کے بعد عمل بالحدیث کی دعوت دی تھی یا ان کے یہاں عمل بالحدیث کا مطلب ائمہ اربعہ کو گالیاں دینا تھا ،یہی فکر ان کے عزیز مولانا فیاض علی صادق پوری کے رسالہ منبع الفیوض میں نظر آتی ہے ،جس میں انہوں نے اجتہاد اور تقلید کے مباحث سے متعلق سوالات کے بہت عالمانہ جوابات دئے ہیں۔
حضرت مولانا ولایت علی کے تذکرہ میں مولانا عبدالرحیم لکھتے ہیں ’’آپ اور آپ کے مریدان مسائل حنفیہ پر جب تک وہ کسی حدیث صریح غیر منسوخ کے مخالف نہ ہوتے عمل کرتے ،کیوں کہ سارے عمل کا خلاصہ اللہ کی خوشنودی کا ڈھونڈنا ہے ،نہ کہ اختلاف پیدا کرنا ‘‘۔(حوالہ سابق)
رسالہ نکاح ثانی کا موضوع بھی ظاہر ہے ۔تحریک جہاد واصلاح کا ایک اہم حصہ بیوہ خواتین کے نکاح کی تحریک بھی تھی ،جو اس وقت بہت معیوب سمجھا جاتا تھا ،چنانچہ حضرت سید احمد شہید نے خو دپہلا نکاح اپنے بھائی کی بیوہ سے کیا تھا ،مولانا عبدالرحیم صادق پوری لکھتے ہیں ’’مولانا نے خود اپنا نکاح ثانی خاندان کی ایک بیوہ صاحبزادی مولوی الہی بخش سے کیا ۔صوبہ بہار وبنگال میں یہ پہلا نکاح ثانی تھا ،اس لئے خوب شوروغل مچا ،اس کے بعد مولانا نے اس سنت کی خوب ترویج کی ‘‘۔(ص۱۲۰،طبع ثانی)