مولانا ڈاکٹر محمد عتیق الرحمن صاحب کا انتقال
علم و تحقیق کی دنیا کا بڑا نقصان
مفتی ثناء الہدی قاسمی
پھلواری شریف پٹنہ 25/ نومبر 2024ء آج صبح چار بجے مولانا ڈاکٹر عتیق الرحمان قاسمی کا طویل علالت کے بعد انتقال ہو گیا وہ اپنے وقت کے بڑے محقق اور نامور عالم دین تھے۔ انہوں نے خدا بخش خاں اورینٹل پبلک لائبریری پٹنہ کے شعبہ مخطوطات کے سابق ذمہ دار اور سابق اسسٹنٹ لائبریرین ہونے کی وجہ سے تحقیق کرنے والوں کے لیے ان کی ذات خود مرجع بن گئی تھی امارت شرعیہ کے رکن مجلس شوری، عاملہ، ارباب حل وعقد اور ملی کونسل بہار کے حوالے سے بھی ان کی خدمات بڑی وقیع تھیں ،وہ امارت شرعیہ کے پروگرام میں پابندی سے شریک ہوا کرتے تھے اور ان کی آراء کو مجلس میں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔
امارت شرعیہ سے محبت کی وجہ سے ہی انہوں نے اپنی ذاتی لائبریری امارت شرعیہ کے کتب خانے کو عطا فرمائی جن میں بہت ساری اہم کتابیں شامل ہیں ،وہ مجھ سے ذاتی طور پر بھی محبت کرتے تھے، انہوں نے اپنا تحقیقی مقالہ علامہ ظہیر حسن شوق نیموی پر لکھا تھا جس پر ان کو پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی تھی، میری تحقیق بھی علامہ ظہیر حسن نیموی پر تھی اور میں نےان کی کتاب آثار السنن کی شرح تفہیم السنن کے نام سے لکھی تھی، اس مزاجی ہم آہنگی کی وجہ سے ذہنی یکسانیت تھی، انہوں نے مدارس اسلامیہ پر کتاب لکھی تو اس پر مجھ سے "حرف چند” لکھوایا جو اس کتاب میں مطبوعہ ہے ان خیالات کا اظہار امارت شرعیہ کے نائب ناظم مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی ،ناظم وفاق المدارس الاسلامیہ اور صدر اردو میڈیا فورم نے اپنے تعزیتی بیان میں کیا، مفتی صاحب نے فرمایا کہ ڈاکٹر مولانا محمد عتیق الرحمن قاسمی کا انتقال علم و تحقیق کی دنیا کا بڑا نقصان ہے، ان کی تصنیفات عرب و ہند کی علمی و ادبی خدمات,نقوش دلی( سفرنامہ) دنیا کے سب سے مقدس دربار میں ,المحدث الکبیر شیخ ظہیر حسن شیخ نیموی ،مرأۃ العلوم ، مشاہیرکے خطوط ، مفتاح کنوز الخفیہ ،عورت قران کریم میں اور اس جیسی دوسری کتابیں ان کی علمی عبقریت و عظمت پر شاہد ہیں ،وہ ذاتی طور پر انتہائی ملنسار ،متواضع اور اخلاقی طور پر انتہائی قابل قدر تھے ،وہ زمانہ تک رابطہ ادب اسلامی بہارکے ذمہ دار رہے انہوں نے ادب اسلامی کےمختلف عنوا۔نات پرسیمینار پٹنہ میں منعقد کیا تھا، ایک سیمینار المعھد العالی امارت شرعیہ کے ہال میں بھی انہوں نے کرایا تھا، جس کا عنوان "اردو ادب میں قصہ نگاری کی روایت ” تھا میں بھی اس سیمینار میں شریک تھا اور مقالہ پڑھا تھا،مرشد امت حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی رح کی صدارت میں یہ پروگرام ہواتھا ایسے بافیض شخص کا دنیا سے رخصت ہو جانا ان کے خاندان ہی نہیں علم و ادب کے قدردانوں کے لیے بڑا سانحہ ہے، اللہ رب العزت مغفرت فرمائے اور پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ ابھی غم تازہ ہے کچھ کہ سناءیں گےجو طبیعت سنبھل گءی