نہ سنبھلو گے تو مٹ جاؤ گے ۔۔۔

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

ہندوستانی مسلمان تاریخ کے بد ترین دور سے گذر رہے ہیں، ان کی جان ومال ، عزت وآبرو پر حملے اس کثرت سے ہونے لگے ہیں کہ یقین ہی نہیں آتا کہ یہ وہی ملک ہے، جہاں سارے مذاہب کے لوگوں کو یکساں حقوق دیے گیے تھے اور مختلف مذاہب وتہذیب کے لوگ جہاں شیر وشکر ہو کر رہتے تھے، ایک دوسرے کے دکھ درد کے شریک اور ایک دوسرے کی خوشیوں سے خوش ہوا کرتے تھے، زمانہ بدلا، وہ لوگ چلے گیے ، جنہوں نے اس ملک کو انگریزوں سے آزاد کرانے کے لیے ہر طرح کی قربانی دی تھی اور زندگی کا بڑا حصہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے گذار دیا تھا ، انہوں نے صرف ایک خواب دیکھا تھا کہ اس ملک میں ذات، برادری ، مذہب او رعلاقائیت کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں ہوگی، یہاں کی گنگا جمنی تہذیب میں ہر مکتب فکر اور مذاہب کے لیے آزادی ہوگی، یہ وہ ملک تھا جسے جنت نشان اور سارے جہاں سے اچھا کہا جاتا تھا۔

زمانہ بدلا ، حالات نے کروٹ لی ، پارٹیوں کے نظریات تبدیل ہوئے او راقلیتوں پر مسائل ومصائب کے پہاڑ توڑے جانے لگے ، دھیرے دھیرے انہیں خصوصا مسلمانوں کو اس سطح پر لا کھڑا کیا گیا کہ وہ ہریجن اوردلتوں سے بھی نیچے چلے گیے، ہریجن اور دلتوں کو اوپر اٹھا نے کے لیے انہیں رزرویشن دیا گیا تھا ، مسلمان کو اس سے بھی محروم رکھا گیا ، تمام وہ برادریاں جو دوسرے مذاہب کی ہیں اور معاشی طور پرپس ماندہ ہیں، ان کو رزرویشن کا فائدہ ملا، لیکن وہی کام کرنے والا مسلمان اس سے محروم کر دیا گیا ، صرف اس لیے کہ وہ محمد رسول اللہ کا کلمہ پڑھتا ہے، اور اسلام میں برادری کا وہ تصور نہیں ہے جو دوسرے مذاہب میں پایا جاتا ہے ۔

مسلمانوں کے اس سطح تک پہونچ جانے کے بعد دستور میں دیے گیے حقوق سے انہیں محروم کرنے کی سازش رچی گئی ، مختلف بہانوں سے انہیں ملازمتوں سے دور رکھا گیا ، ان کی مسجدوں پر حملے کیے گئے ، بابری مسجد توڑ دی گئی،ائمہ ومؤذن کو شہید کیا گیا، ہجومی تشدد کے ذریعہ کبھی لو جہاد ، کبھی گئو کشی اور کبھی بغیر کسی سبب کے مسلمانوں کو قتل کرنے کا سلسلہ دراز ہوا ، طلاق کو کالعدم قرار دینے کے سارے حربے آزمالیے گیے، عدالت سے فیصلہ بھی آگیا اور پارلیامنٹ سے قانون بھی پاس کرایا گیا،تعلیمی نظام کے بھگوا کرن کی تحریک چلائی گئی ، بعض ریاستوں میں یوگا اورسورج نمسکار کو اسکولوں میں لازم قرار دیا گیا ، اذان پر پابندی کی بات کی گئی اور مساجد سے مائک کے استعمال تک کے لیے پر میشن اور اجازت لینے کا حکم جاری کیا گیا، ہماری مذہبی شناخت چھین لینے کی مسلسل اور منظم کوشش اب بھی جاری ہے ، کبھی ڈاڑھی منڈوانے کا حکم دیا جا رہا ہے ، کبھی نقاب اور حجاب پر سوالات اٹھائے جا رہے، ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے جنہوں نے مذہب کا قلادہ اپنی گردن سے اتار پھینکا ہے ، اس طرح اب مسلمانوں کو ان حالات کا سامنا ہے، جس میں ان کے دینی عقائد ونظریات پر ضرب لگائی جا رہی ہے او ریہ سب کچھ حکومت کی نگرانی اور سایے میں ہو رہا ہے، اس طرح دین اسلام کو دیش نکالا دینے کی تحریک زوروں پر چل رہی ہے، اور کہا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کو ہندوستان چھوڑدینا چاہیے ، ان کی جگہ قبرستان یا پاکستان ہے۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ مسلمان ہندوستان میں ایسی جد وجہد اور تحریک کا آغاز کریں جس سے حکومتی سطح سے دین میں کی جانے والی مداخلت کا سد باب کیا جا سکے، اور بتایا جا ئے کہ مسلمان یہاں کی دوسری بڑی اکثریت ہے، اس لیے دستور میں اسے جو تحفظات دیے گیے ہیں ، اس کو ختم نہیں کیا جاسکتا اور اس کام کے لیے ہم ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔

دوسرا معاملہ ملک کی بقا اور سالمیت کا ہے، آزادی کے بعد ۱۹۵۰ء میں دستور ہند کے نفاذکے وقت اس ملک کو سیکولر جمہوریہ قرار دیا گیا، اس وقت جن لوگوں کے ہاتھوں میں اقتدار کی باگ ڈور تھی، وہ اس دستور کے پابند تھے، انہوں نے غلام ہندوستان کو دیکھا تھا جدوجہد آزادی میں حصہ لیا تھا، حکمراں پارٹی پر مسلمانوں کا دبدبہ باقی تھا اور کوئی فیصلہ لیتے وقت حکومت بار بار سوچتی تھی کہ اس کا اثر رائے عامہ پر کیا پڑے گا اور انتخابی سیاست میں رائے دہندگان کا رخ اس فیصلے کے بعد کدھر ہوگا، پھر ہوا یہ کہ دھیرے دھیرے مقننہ میں ایسے لوگ آگیے جن کی ذہنیت فرقہ واریت سے مسموم تھی، او رجن کے دلوں میں خدمت کے جذبہ کے بجائے مال ودولت کے حصول کا جذبہ پروان چڑھ چکا تھا ، نتیجہ یہ ہو ا کہ جمہوریت کا پہلا ستون کمزور ہو گیا ، ممبران کی خرید وبکری سے لے کر سوالات پوچھنے کے لیے رشوت لینے تک کے واقعات سامنے آئے، اس خرید وفروخت کی وجہ سے حکومتیں بنتیں اور گرتی رہیں، آیا رام گیارام کی مثل عام ہو گئی ، سیاسی گلیاروں میں ہو رہی اس بد عنوانی نے لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس پہونچا یا اور عوام میں سیاسی لیڈران کی پکڑ ہی نہیں، قدر بھی کم ہوئی ، عدلیہ پر لوگوں کا اعتماد جما ہوا تھا ، اور ہر ظلم کے خلاف انصاف کے حصول کے لیے لوگوں کی نظر ادھر جاتی تھی ، لیکن بابری مسجد حقیت کے معاملے میں زمین کی تقسیم ، جسٹس لویا کی موت اور عدالت عظمیٰ کے چار ججوں کے ذریعہ تاریخ میں چیف جسٹس کے رویہ پر ہونے والی پہلی پریس کانفرنس میں ججوں کے ذریعہ یہ اعلان کہ جمہوریت خطرے میں ہے نے عوام کے ذہن ودماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ، ان معاملات کی وجہ سے جمہوریت کے اس دوسرے ستون پر بھی زوال کے آثار دِکھنے لگے ہیں، خصوصا اس صورت میں جب عدالت میں بحالیاں قابلیت کے بجائے پارٹی وفاداری کی بنیاد پر کی جا رہی ہوں۔

جمہوریت کے تیسرے ستون انتظامیہ کا حال یہ ہے کہ فائل کو جس قدر مضبوطی سے آپ دوڑانا چاہتے ہیں، رشوت کے اتنے مضبوط پہیے کا استعمال کرنا ہوگا ، اگر رشوت کا پہیہ نہ لگایا گیا یا مضبوط انداز میں نہیں لگایا گیا تو وہ فائل دفاتر میں سرک بھی نہیں سکتی ہے ، کوئی کام کرانا ہے توشُبِدھا شلک (رشوت) دینا ہی ہوگا، اس طرح تیسرا ستون بد عنوانی میں کمر تک نہیں گردن تک ڈوب کر رہ گیا ہے۔

ان معاملات ومسائل نیز عوام کی پریشانیوں کو سرکاری محکموں تک پہونچانے کے لیے ذرائع ابلاغ چوتھا ستون تھا ، اخبارات ، ٹیلی ویزن وغیرہ کے ذریعے آواز اٹھانے پر حکومت کے کان کھلتے تھے اور اس کے نتیجے میں پریشانیاں دور ہوتی تھیں، لیکن اب ذرائع ابلاغ پرنٹ اور لکٹرونک میڈیا بھی حکمراں جماعت کے ہاتھ مال ودولت کی ہوس میں بک چکے ہیں، اس لیے اینکر، ٹی وی کے اناؤنسر فرقہ واریت پھیلا نے ، اقلیتوں کے مسائل کو دبانے اور حکومت کو شاباشی دینے میں لگے ہوئے ہیں، رائے عامہ ذرائع ابلاغ ہی بیدار کرتے تھے، ان کے بک جانے سے ملک کے عوام کے ذہن وسوچ کو صحیح رخ نہیں مل پارہا ہے، جس کی وجہ سے جمہوری قدروں کا جنازہ نکلتا چلا جا رہا ہے، گویا خطرات کے بادل دین پر بھی منڈلا رہے ہیں اور ملک پر بھی ، ان حالات میں ضروری ہو گیا ہے کہ ملک وملت بچانے کے لیے مضبوط ، مستحکم اور مسلسل جد وجہد کی جائے ۔

ہمیں یہاں پر یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ دین بچانے کے لیے حکمرانوں کے فیصلے کی مخالفت کے ساتھ ، دین کو اپنی زندگی میں اتارنے کی بھی ضرورت ہے، دین بچانے اور اس کے تحفظ کے لیے پہلا کام خود کرنے کا ہے اور وہ ہے کہ ہم بد عملی اور بے عملی سے دور رہیں، اسلام نے جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا ہے، اسے بجالائیں، جن کا موں سے روکا ہے، اس سے رک جائیں ، ہرپل ہمیں اس کا خیال رہے کہ ہماری نگرانی ہو رہی ہے، اللہ دیکھ رہا ہے ، اور اگر ہم نے دین سے دوری اختیار کی تو اس کی سزا ہمیں ملے گی ،یہ احساس جس قدر غالب ہوگا، دین ہمارے کیرکٹر، کردار، اعمال وافعال میں محفوظ ہوجائے گا، جب ذاتی زندگی میں ہم شریعت پر عمل پیرا ہوں گے تو ہمیں نئی طاقت وتوانائی ملے گی اور دین میں مداخلت کرنے والوں کے خلاف ہمارے جذبے اور حوصلے جواں ہوں گے۔

مسلمان ایک زندہ قوم اور بیدار امت ہے،ا س کے لیے مایوسی اور اللہ کی رحمت سے نا امیدی کفر کی طرح ہے، ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نہیں رہ سکتے، ان حالات کو بدلنے کے لیے ایمانی جذبے، اسلامی حوصلے اور پوری قوت کے ساتھ کوشش کرنی ہوگی، اللہ کا وعدہ ہے کہ انسان کو وہ چیز مل جاتی ہے، جس کے لیے وہ کوشش کرتا ہے۔ کوشش نہیں ہوئی تو ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ ’’نہ سنبھلوگے تو مٹ جاؤگے ۔۔۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply