پندرہویں صدی ہجری کے اعلام بہار شریف و عظیم آباد (سابق ضلع پٹنہ)

( قسط ششم )

 طلحہ نعمت ندوی

رمز عظیم آبادی

رمز عظیم آبادی کا پورا نام رضا علی خاں بن قدرت اللہ خاں تھا ،پٹنہ سیٹی میں ۱جون ۱۹۱ کو پیدا ہوئے ،ابتدائی تعلیم گھر ہی میں حاصل کی ،مزید غربت کی وجہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کرسکے ،بلکہ اپنے ذوق ،آزادانہ مطالعہ اور ادبی محفلوں میں شرکت سے اپنے اندر صلاحیت پیدا کی اورشاعری کی دنیا میں کمال حاصل کیا ،فکر معاش کے لئے انہوں نےالگ الگ بہت سے معمولی کام بھی کئے،مزدوری بھی کی ،پھر حکومت بہار کے ایک محکمہ میں ملازمت مل گئی ،جس میں طویل مدت تک مشغول رہ کر سبک دوش ہوئے ،۱۵جنوری ۱۹۹۷ ،رمضان المبارک ۱۴۱۷ھ کو ان کی وفات ہوئی ۔ دبستان عظیم آباد کے شعرا میں ان کا مقام بہت بلند تھا ۔(مزید حالات وشاعری کے لئے رمز عظیم آبادی شخصیت اور فن ، محمد شمس الحق ،پٹنہ)

پندرہویں صدی ہجری کے اعلام بہار شریف و عظیم آباد (سابق ضلع پٹنہ)
پندرہویں صدی ہجری کے اعلام بہار شریف و عظیم آباد (سابق ضلع پٹنہ)

شاہ نور الدین فردوسی

شاہ نورالدین احمد فردوسی بن شاہ عنایت اللہ فردوسی ،خانقاہ منیر کے سجادہ نشیں تھے ،اور ممتاز قانون داں تھے ،قانون کا امتحان دیا اس کے بعد پٹنہ ہائی کورٹ میں وکالت کرتے رہے ،والد کے انتقال کے بعد سجادہ نشیں ہوئے اور تازندگی یہ خدمت انجام دی ،۲۹شعبان ۱۴۳۱ھ مطابق ۱۰ اگست ۲۰۱۰ کو ان کا انتقال ہوا ،اور اپنے خاندانی قبرستان میں دفن ہوئے۔

شاہ برہان الدین فردوسی

شاہ برہان الدین فردوسی بن شاہ عنایت اللہ فردوسی ،مدرس اور معلم تھے ،پٹنہ یونیورسٹی میں تعلیم مکمل کی پھر سعودی عرب میں بائیس سالوں تک دریس خدمت انجام دی ۔رجب ۱۴۲۵ھ مطابق ستمبر ۲۰۰۴ میں پٹنہ میں انتقال ہوا اورخانقاہ منیر میں کے قبرستان میں دفن ہوئے۔(حیاتی ،ص۷۷)

شاہ تقی الدین فردوسی ندوی

شاہ تقی الدین فردوسی ندوی بن شاہ عنایت اللہ فردوسی منیری ممتاز عالم تھے ،۱۹۴۲ میں منیر میں پیدا ہوئے ،ابتدائی اپنے والد اور خاندان کے بزرگوں سے حاصل کی ،اس کے بعد دارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخلہ لیا ،اور فضیلت تک تعلیم مکمل کی ،اس کے بعد انہیں جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ (مدینہ یونیورسٹی)میں دو سال گذارنے اور تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا ،پھر ایک دو سال قاہر ہ میں تعلیم حاصل کی ،اس کے بعد سعود ی عرب میں ایک اسکول میں استاد ہوگئے اور تقریبا چالیس سال وہاں کے مختلف شہروں میں رہے ،پھر پٹنہ واپس آئے اور یہاں اپنی تصنیفی خدمت میں مشغول رہے ،وہ اچھے شاعر بھی تھے اور نثر نگار بھی ۔۱۵ربیع الاول ۱۴۴۶ھ مطابق ۱۹ ستمبر ۲۰۲۴ کو دہلی میں وفات پائی ،جنازہ پٹنہ لایا گیا اور اپنی نانہال خواجہ کلاں پٹنہ سیٹی کے خاندانی قبرستان میں دفن ہوئے۔عر میں ایک رسالہ عبقریۃ العلامہ السید سلیمان الندوی اور چند اردو رسائل یادگار ہیں ۔(تفصیل کے لئے دیکھئے ان کی خود نوشت حیاتی ،پٹنہ ۲۰۲۴)

حسن عسکری

سید حسن عسکری ولد رضی حسن ملک کے مشہور ومورخ ومحقق تھے،سادات کے ایک شیعہ گھرانے سے تعلق تھا،۱۹۰۱ میں کھجوا ضلع سیوان میں ولادت ہوئی،ابتدائی تعلیم وطن ہی میں مدرسہ اسلامیہ میں حاصل کی ،پھر ضلع اسکول چھپرہ سے ہائی اسکول کا امتحان دیا ،اس کے بعد مظفر پور لنگٹ سنگھ کالج میں انٹر اور گریجویشن کی تعلیم حاصل کی پھر پٹنہ آگئے ،یہاں پٹنہ یونیورسٹی میں ایم اے میں داخلہ لیا ،اور ۱۹۲۴ میں تاریخ میں ایم اے کی سند حاصل کی اور ۱۹۲۵ میں بی ایل کا امتحان پاس کیا ،۱۹۲۷ میں پٹنہ کالج میں لکچرا ر ہوئے ،۱۹۵۰ میں پٹنہ یونیورسٹی میں پروفیسر کے عہدہ تک ترقی ہوئی ۔وہ ملک کے بڑے عظیم مورخ اور عہد وسطی کے چند منتخب ماہرین میں تھے۔ملک کے موقر اداروں سے وابستہ رہے اور ان رکنیت حاصل رہی ،بہت سے اعزازات سے بھی نوازاگیا ،ان کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔انگریزی اردومیں ان کے مقالات کا بہت بڑا ذخیرہ ہے جو کئی جلدوں میں الگ الگ شائع ہوا ہے ۱۱جمادی الاول ۱۴۱۱ھ مطابق۲۸ نومبر ۱۹۹۰ کو ان کا انتقال ہوا ۔(ان کے تفصیلی حالات کے لئے دیکھئے پروفیسر سید حسن عسکری کے چند اردو مقالات کا تنقیدی جائزہ ،ڈاکٹر محمد شمیم ،پٹنہ۲۰۲۰۔)

مولانا سید نظام الدین

مولانا سید نظام الدین معروف عالم اور ملی قائداور بہار کے امیر شریعت تھے ،ان کے والد کا نام سید حسین تھا ،گیا میں ۱۹۲۷ میں ولادت ہوئی ،وطن وعلاقہ میں ابتدائی وثانوی تعلیم کے بعد دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور کئی سال کی تعلیم کے بعد فضلیت کی تکمیل کی ،اس کے بعد تدریسی خدمت میں مشغول ہوئے ،ایک طویل مدت تک مدرسہ ریاض العلوم ساٹھی چمپارن اور چند سال مدرسہ رشید یہ چترا میں تدریس واہتمام کی ذمہ داری انجام دی ،اس کے بعد انہیں امارت شرعیہ مدعو کیا گیا ،جہاں اپنے حسن تنظیم کی وجہ سے وہ نظامت کے عہدہ پر فائز ہوئے ،پھر پٹنہ ہی میں مقیم ہوگئے ،امارت میں طویل مدت تک نظامت کی خدمت انجام دی ،اس کے بعد مسلم پرسنل لاکے جرنل سکریٹری ہوئے ،پھر امارت شرعیہ کے امیر شریعت کے عہدہ پر فائز ہوئے اور تازندگی ان دونوں اداروں کے ذریعہ ملت کی خدمت انجام دیتے رہے ۔طویل مدت تک خدمت کے بعد۴ محرم الحرام ۱۴۳۷ھ مطابق ۱۷اکتوبر ۲۰۱۵ء کو پٹنہ ہی میں ان کا انتقال ہوا ،اور حاجی حرمین قبرستان پھلواری شریف میں دفن ہوئے ۔(تفصیل کے لئے دیکھئے ،باتیں میر کارواں کی اور حضرت امیر شریعت از عارف اقبال ،ودیگر رسائل)

ممتاز احمد

ممتاز احمد پٹنہ کے معروف ادیب ومصنف تھے ،والدکا نام مولوی محمد ابراہیم تھا ۳۰ دسمبر ۱۹۳۳ کو پٹنہ میں پیدا ہوئے ،آبائی وطن دانا پور تھا ۔ابتدائی تعلیم گھر پر اور مدرسہ اصلاح المسلمین پٹنہ میں حاصل کی ،پھر مسلم ہائی اسکول پٹنہ سے ہائی اسکول کی تعلیم مکمل کی ،اس کے بعد پی ایچ ڈی تک کی پوری تعلیم پٹنہ یونیورسٹی ہی میں مکمل کی ۔مثنویات راسخ کی تدوین ان کے پی ایچ ڈی کے مقالہ کا موضو ع تھا ۔۱۹۵۸ میں شعبہ اردو میں استاد ہوئے ،کچھ دنوں تک کالج کے پرنسپل بھی رہے ،۱۹۹۳ میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے ،چند سال ذی فراش رہ کر۲ربیع الاول ۱۴۱۹ھ۲۶ جون ۱۹۹۸ کو وفات پائی اور پٹنہ ہی میں دفن ہوئے ۔وہ پٹنہ کے سرگرم وفعال ادیب واہل علم تھے ،مختلف اداروں کے رکن رہے ۔اور متنوع ادبی سرگرموں میں حصہ لیتے رہے۔قابل ذکر کتابوں میں اردو شعراء کا تنقیدی شعور ۔کلیم الدی احمد کی شاعری پر ایک نظر ۔مکاتیب شہباز کے علاوہ اور کئی کتابیں ہیں۔(ان کے حالات ان پر ایک تحقیقی مقالہ از رفعت اقبال پٹنہ یونیورسٹی میں دیکھے جاسکتے ہیں۔نیز دیکھئے ،بہار کی بہار ۔ص ۲۱۶)

رونق استھانوی

ابوالجمال علی حسن بن ابوالحسن استھانوی،رونق تخلص سے شہرت پائی ،استھاواں آبائی وطن تھا ، ،مدرسہ شمس الہدی میں علوم اسلامیہ کی تکمیل کی، پھر ہومیوعلاج کی تعلیم پٹنہ ہی میں مکمل کی ،پھر کچھ عرصہ جامعہ رحمانی مونگیر میں رہے ،اس کے بعد مدرسہ عزیزیہ بہارشریف میں استاد ہوئے اور پوری زندگی وہیں گذاری،بسیار گو شاعر تھے ،علم عروض پر بھی بہت گہری نظر تھی ،کئی شعری مجموعے زندگی ہی میں شائع ہوئے تھے۔۱۳شوال ۱۴۱۳ھ مطابق،۵ اپریل ۱۹۹۳کوبہارشریف میں وفات پائی اور اپنی سسرال پنہسہ (راجگیر)میں دفن ہوئے۔(کچھ حالات ان کے شعری مجموعوں میں ہیں ،نیز راقم کی کتاب حضرت مولانا ابوالمحاسن محمد سجادمطبوعہ دہلی ۲۰۱۸)

قاری طیب اخلاقی۔

قاری طیب اخلاقی ممتاز عالم وخطیب اور جید قاری تھے ،والد کا نام مولانا اخلاق اور آبائی وطن سیوے ضلع جموئی تھا ،ابتدائی تعلیم اپنے والد سے حاصل کی پھردارالعلوم دیوبند میں تعلیم کی تکمیل کی ،اس کے بعد جمشید پور میں ایک مدت تک امام وخطیب رہے ،اور امارت شرعیہ کی خدمت بھی انجام دیتےر ہے۔پھر بہارشریف آئے اور مدرسہ عزیزیہ میں مدرس اور جامع مسجد کے امام وخطیب مقرر ہوئے ،اور اسی شہر سے ایک ماہانہ مجلہ فکر وعمل جاری کیا جو چند شماروں تک نکل کربند ہوگیا،علم ومطالعہ میں بہت وسعت تھی ،اورتحریر وتقریر دونوں پر اچھی قدرت تھی۔۳ربیع الثانی ۱۴۳۸ھ مطابق۱جنوری ۲۰۱۷ کو تقریبا ۶۵ سال کی عمر میں بہارشریف ہی میں وفات پائی ۔(تفصیل کے لئے دیکھئے راقم کا مضمون قومی تنظیم نیز یادوں کے چراغ اور مولانا مفتی ثناء الہدی قاسمی )

( جاری)

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare