کانگریس کے سردار پٹیل سے بی جے پی کو اتنا پیار کیوں؟

 پروفیسر محمد سجاد

اردو ترجمہ : نورالزماں ارشد

بر سر اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی سردار ولبھ بھائی پٹیل (1875 تا 1950) جیسے قد آور کانگریسی رہنما سے اس قدر پیار و احترام کا اظہار کیوں کرتی رہتی ہے؟ یہ سوال ایک گہرے تاریخی اور سیاسی پس منظر کا متقاضی ہے۔ سردار پٹیل، جنہوں نے فروری 1949ء میں ہندو راج کے نظریے کو "پاگل پن” قرار دیا تھا، آج انہیں ہی ہندوتوا بھگوائ طاقتیں اپنے سیاسی مقاصد کے لیے اپنانا چاہتی ہیں۔ آخر کیوں؟

کانگریس کے سردار پٹیل سے بی جے پی کو اتنا پیار کیوں؟ 
کانگریس کے سردار پٹیل سے بی جے پی کو اتنا پیار کیوں؟

اگست 1947 میں تقسیم کے بعد، 7 ستمبر 1947 کو دہلی میں ہونے والی قتل و غارت گری کے دوران، سردار پٹیل نے جواہر لال نہرو اور لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی موجودگی میں واضح الفاظ میں کہا، "میں دہلی کو دوسرا لاہور بننے کی اجازت نہیں دے سکتا۔” انہوں نے جانب دار افسران کے خلاف سخت کارروائی کی دھمکی دی اور بلوائیوں کو دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات جاری کیے۔

پٹیل کے اہم ترین سوانح نگار راج موہن گاندھی لکھتے ہیں، اگلی صبح، انہی ہدایات پر عمل درآمد کے لیے افسروں (جن میں ایل۔ کے۔ جھا اور کے۔ بی۔ لال شامل تھے) اور رضاکاروں کی ایک مخصوص ٹیم تشکیل دی گئی۔ جنہوں نے تین بڑے کام انجام دیے جن میں سب سے پہلے دہلی کے مسلمانوں کی حفاظت کرنا شامل تھا۔ پھر دہلی اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں میں بے گھر اور خوف زدہ مسلمانوں کے لیے کیمپوں کا انتظام کرنا اور مغربی پاکستان سے دہلی آنے والے بے گھر اور تباہ ہو چکے ہندوؤں اور سکھوں کے لیے کیمپوں کا قیام کرنا شامل تھا۔

وزیر داخلہ پٹیل نے بذات خود متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور دن بھر دہلی کے چیف کمشنر خورشید احمد خان، ڈپٹی کمشنر ایم۔ ایس۔ رندھاوا، ہوم سیکرٹری بنرجی، اور انٹیلیجنس چیف سنجیوی کے ذریعے پل پل کی خبروں سے خود کو باخبر رکھا۔ افسر شاہی کی اس سماجی ترکیب یعنی کمپوزیشن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

حیرت کی بات نہیں کہ گاندھی جی کے قتل سے چند روز قبل، بہار میں ایک ہندو مہاسبھا کارکن نے ایک عوامی جلسے میں اعلان کیا کہ پٹیل، نہرو، اور آزاد کو پھانسی دے دی جانی چاہیے۔ جس کے خلاف ڈاکٹر راجندر پرساد نے شیاما پرساد مکھرجی کو خط لکھ کر آگاہ کیا تھا۔ اس امر کا موازنہ 2002ء کے گجرات فسادات سے کریں۔ جہاں انتظامیہ نے جان بوجھ کر تاخیر کی، کئی گھنٹوں تک گاڑیاں فراہم نہیں کی گئیں، اور فسادات کے دوران خاموش تماشائی بنی رہی۔انتظامیہ کے اس رویے کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر تباہی ہوئی۔ جیسا کہ لیفٹیننٹ جنرل ضمیر الدین شاہ نے اپنی آپ بیتی، ’سرکاری مسلمان‘ میں اس حقیقت پر روشنی ڈالی ہے۔

جنوبی دہلی میں جب چند شر پسندوں نے درگاہ حضرت نظام الدین اولیاء پر قبضہ کر لیا تھا تب سردار پٹیل نظام الدین اولیاء کے مزار کی حفاظت کے بارے میں انتہائی فکرمند تھے۔ جہاں کئی خوف زدہ مسلمان پناہ گزین تھے۔ پٹیل آدھی رات کو دوڑ کر موقع واردات پر پہنچے۔ انہوں نے اپنی شال کندھے پر ڈالی اور پرائیوٹ سکریٹری سے کہا: "قبل اس کے کہ ولی اللہ ناراض ہوں ہمیں ان کی خدمت میں پہنچ جانا چاہئے”۔ ولی اللہ سے مراد حضرت نظام الدین اولیاء تھے۔ وہ وہاں تقریباََ ایک گھنٹے تک رہے اور بہت احترام و تقدس کے ساتھ درگاہ کا طواف کیا۔ متاثرہ لوگوں سے حالات دریافت کیے اور امن و امان بحال رکھنے کے لیے علاقے کے پولیس افسروں کو سخت تاکید کی کہ اب اگر مزید کوئی گڑ بڑ ہوئی تو ان پولیس والوں کو ہی ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا اور ان افسروں کو ملازمتوں سے معطل کر دیا جائے گا۔ سردار پٹیل کے یہ اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ پٹیل فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے قیام میں کتنی گہری دلچسپی رکھتے تھے۔

اس کے برعکس، اس واقعے کا موازنہ 2002ء کے گجرات میں ہوئے قتل و غارت میں، گجرات انتظامیہ کے طرز عمل سے کریں۔ جب ولی دکنی کے مزار کو بلڈوزر سے مسمار کر ہمیشہ کے لیے ناقابل شناخت بنا دیا گیا تھا۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت سردار پٹیل کو اپنا نظریاتی آئیکون بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ حالانکہ پٹیل خود ہندوتوا نظریے کے سخت ناقد تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہندوتوا طاقتیں تاریخی شخصیات کو اپنے مفاد کے مطابق پیش کرتی ہیں۔ پٹیل کی وہ باتیں جو ان کے فرقہ واریت مخالف کردار کو ظاہر کرتی ہیں، نظرانداز کر دی جاتی ہیں، اور صرف ان کے ان بیانات کو نمایاں کیا جاتا ہے جنہیں اپنے نظریے کے حق میں استعمال کیا جا سکے۔ یہ کہنے کی چنداں ضرورت نہیں کہ اس کا خالص مقصد سیاسی ہے اور کچھ نہیں۔

سردار پٹیل کے نظریات کو فراموش کرتے ہوئے، ہندو شدت پسند طاقتیں (اور مسلم کے کچھ طبقے) دونوں ہی ان کے کچھ خاص پہلوؤں کو منتخب (سیلیکٹیو) اور جانب دارانہ انداز میں پیش کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، مسلمانوں کے درمیان پٹیل سے منسلک ایک بات مقبول ہے کہ، پٹیل نے گاندھی جی سے کہا تھا کہ جو مسلمان بھارت کے وفادار نہیں ہیں انہیں بھارت چھوڑ دینا چاہیے، اور وہ اکثر یہ شکایت کرتے تھے کہ مسلمانون کی اکثریت غیر وفادار ہے۔

لہذا، دونوں کمیونٹیز کے کچھ طبقے، ہمیشہ سردار پٹیل کو جزوی طور پر، سیلیکٹیو انداز میں، اور متعصبانہ نقطۂ نظر سے دیکھتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اکثریتی فرقہ پرست قوتوں نے سردار پٹیل جیسی قد آور شخصیت کو اپنانے اور ان کی قدر کرنے کی جہت شروع کی ہے۔

چناچہ، نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسی پیچیدہ تاریخ کو معروضی انداز میں سمجھنا آسان نہیں۔ لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے، تاکہ تاریخ کے سبق کو موجودہ وقت میں بروئے کار لایا جا سکے۔ یہ کام عظیم ترین انسانوں کے لیے بھی اکثر آسان نہیں رہا ہے۔

ستمبر 1947 میں، حکمران کی حیثیت سے سردار پٹیل خوش تھے کہ ان کی امرتسر کی تقریر نے گہرا اثر ڈالا اور قتل و غارت گری کو روکا گیا۔ تاکہ آبادیوں کی سرحد پار پرامن نقل مکانی ہو سکے۔ جب کہ گاندھی جی اس پر نالاں تھے کہ لوگ اپنے گھروں کو چھوڑ کر مجبورا پناہ گزین بنائے جا رہے ہیں۔

راج موہن گاندھی لکھتے ہیں، اگر ولبھ بھائی گاندھی جی سے اختلاف رکھتے تھے، تو ان کی (مولانا) آزاد سے بھی اختلاف یا کشیدگی ہوئی۔ اس نازک وقت میں، دونوں نے ایک دوسرے کو فرقہ پرست سمجھا۔ جب آزاد نے سردار پٹیل کو تقسیم کی حمایت کرنے اور گاندھی کو اس پر راضی کرنے کا الزام دیا، تو ولبھ بھائی مولانا کی مسلم لیگ کی طرف قوم کے جھکاؤ کو روکنے میں ناکامی کو بھلا نہیں سکے۔

یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ آزاد کو پٹیل کے تئیں یہ شکایت نہیں تھی کہ کانگریس کے کافی اراکین (اور دیگر ہندو بھی) ہندو مہاسبھا-آر ایس ایس جیسی تنظیموں سے ہمدردی رکھتے تھے۔ لہٰذا، سردار پٹیل اور مولانا آزاد کے درمیان اختلافات کو بھی اس حوالے سے دیکھنے و سمجھنے کی ضرورت ہے۔

اسی طرح، مسلمانوں کے ایک طبقے کو یہ یاد کرنا پسند نہیں کہ آزاد اور نہرو نے پٹیل کا ایک اہم مسئلے پر ساتھ دیا تھا جس میں کابینہ کی اکثریت نے یہ تجویز پیش کی کہ دہلی میں مسلمانوں کے خالی کیے گئے مکانوں کو پہلے ان مسلمانوں کو دیا جائے جو اپنے گھروں سے ہجرت تو کر گئے لیکن واپس ہندوستان میں ہی رہنے کے خواہاں تھے۔

پٹیل نے، یہ مانتے ہوئے کہ ہندو اور سکھ پناہ گزینوں کو بھی ان رہائشوں پر مساوی حق حاصل ہے، اس تجویز کی مخالفت کی، اور آزاد و نہرو نے پٹیل کی حمایت کی۔

ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہندوتوا طاقتیں اقلیتوں کے استحصال کی نیت اور خواہش رکھتی ہیں۔ اور جدید ہندوستان کے چند معماروں کی موقع پرست سیاست ان سے گہری جڑی ہوئی ہے۔

یہ بنیادی طور پر نہرو کے نظریات کو پست اور مسخ کرنے پر مرکوز ہے۔ کیوں؟ کیونکہ نہرو کی قیادت کو ہندوتوا قوتیں، اس تناظر میں دیکھتی ہیں کہ نہرو کی وجہ سے ہی انہیں اپنا ہندو راج قائم کرنے میں دشواری پیش آئی۔ کیونکہ یہ ایک ایسا نظریہ تھا جو ہندوستان کو سیکولر ریاست بنانے کے ساتھ ہی اقلیتوں کے حقوق کی تحفظ کا ضامن بھی تھا۔ یعنی نہرو کا سیکولر نظریہ، جو اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کرتا تھا، ہندوتوا طاقتوں کے لیے سب سے بڑی رکاوٹ تھا۔ یہی بات بھگوائی قوتوں کو گراں گزرتی ہے۔

تاہم، ہندوتوا کے حامی، تریاق کے طور پر، چند قد آور شخصیات کبھی پٹیل کبھی بوس کو نہرو کے مخالف دیکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ سردار پٹیل کو نہرو کے مقابلے میں پیش کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اگر پٹیل وزیر اعظم ہوتے تو ہندوستان مختلف ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوتوا کے حامی سردار پٹیل کو یاد کرتے وقت انہیں باتوں کا تعین کرتے ہیں جو ان کے مفاد میں ہوں۔ باقی باتوں کو دانشتہ طور پر نظر انداز کر دیتے ہیں۔

فروری 1950 کے آخر میں جواہر لال نہرو نے سردار ولبھ بھائی پٹیل کو وزیر اعظم کا عہدہ پیش کیا تاکہ وہ مشرقی بنگال کا دورہ کریں، جیسا کہ مہاتما گاندھی نے اپنے وقت میں کیا تھا۔ تاہم، پٹیل نے یہ پیشکش فوراً مسترد کر دی۔ اس حقیقت کو آج بھگوائی طاقتیں جان بوجھ کر نظرانداز کرتی ہیں۔

یہ بھی یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ اپریل 1950 میں پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کے ساتھ جو معاہدہ طے پایا، وہ سردار پٹیل کی مکمل حمایت کے بغیر ممکن نہ تھا۔ اس معاہدے میں دونوں ممالک نے اپنی اپنی اقلیتوں کو مساوی شہری حقوق فراہم کرنے، اقلیتی کمیشن قائم کرنے، فسادات کی تحقیقات کے لیے کمیشن بنانے اور بنگال اور آسام کی حکومتوں میں اقلیتوں کے نمائندے شامل کرنے پر اتفاق کیا تھا۔

اس معاہدے کو کامیاب بنانے کے لیے سردار پٹیل نے کلکتہ میں بھرپور مہم چلائی۔ انہوں نے مغربی بنگال کابینہ، ریاستی کانگریس کمیٹی کے ارکان، اسمبلی اراکین، ہندو مہاسبھا کے رہنماؤں، مسلم کانگریسیوں، طلبہ، اور پناہ گزینوں سمیت مختلف طبقوں سے ملاقاتیں کیں۔

اسی طرح، بنگالی عوام کے دل و دماغ جیتنے کی کوشش میں سبھاش چندر بوس کے نظریات کو اپنے ایجنڈے میں شامل کرنے کی بھی سعی کی گئی۔ لیکن اس عمل میں بوس کے ہندو مسلم اتحاد اور فرقہ واریت کے خلاف مؤقف کو نظرانداز کیا جاتا ہے۔ بوس کی فوجی حکمت عملی کو ہندوتوا کے شدت پسند قوم پرستانہ تصورات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، حالانکہ وہ اس سے مختلف تھی۔

بوس کی موت کے حوالے سے ہوائی حادثے کے راز پر یقین رکھنے کی خواہش دراصل اس احساس کو چھپانے کی کوشش ہے کہ اگر بوس زندہ ہوتے تو وہ ایک ایسا ہندوستان تشکیل دیتے جو نہرو کے تصور سے بالکل مختلف ہوتا۔ بوس کے جانشین اور معروف مؤرخ اور سابق رکن پارلیمان، سوگاتا بوس نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا، "آزادی کی جدوجہد کے شاندار آئیکون کے طور پر نیتا جی کو اکثر سیاسی مفادات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، خاص طور پر انتخابات کے دوران۔ ہندو دائیں بازو ان کی بہادری کو تو سراہتا ہے لیکن ان کے ہندو مسلم اتحاد اور اقلیتوں کے حقوق کے عزم کو یکسر نظرانداز کرتا ہے۔”

ہندوتوا کی "دبی ہوئی” یا کسی قدر مخفی سوچ ہے کہ اقلیتوں کو مکمل طور اپنے تابع رکھا جائے اور یہ رجحان 1980ء کی دہائی سے مزید شدت اختیار کر چکا ہے۔ خاص طور پر مسلمانوں کے درمیان متوسط اور خوشحال طبقات کے ابھرنے کے بعد۔ ان طبقات نے میڈیا اور تعلیم کے میدان میں اپنی موجودگی محسوس کرائی ہے، جس سے ہندوتوا نظریات کو چیلنج ملا ہے، یا یہ موجودگی ان کی آنکھوں میں کھٹکتی ہے۔

موجودہ حکومت کی ایک اضافی وجہ بھی ہے کہ سردار پٹیل کے بڑے مجسمے کے ذریعے گجراتی فخر (اسمتا) کے عنصر کو ابھار کر وہ اپنی ناکامیوں، جیسے، بے روزگاری، مہنگائی اور کرپشن یعنی بدعنوانی کو چھپانے کی کوشش کرتی ہے۔ فرقہ وارانہ پولرائزیشن اور اکثریتی یکجہتی کو ہوا دے کر وہ عوامی توجہ ہٹانے کی حکمت عملی اپناتی ہے۔

اکثریتی فرقہ پرست قوتوں کی یہ روش کچھ عجیب نہیں۔ یہ پاکستان کی ان پالیسیوں کی طرح ہے، جو اسلام کے نام پر اقلیتوں سے امتیازی سلوک کر کے اپنی داخلی ناکامیوں کو چھپاتی ہیں۔ لیکن نتیجتاً، دونوں جانب ایسی پالیسیاں ملکوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتی ہیں۔

اس سے کیا نتیجہ نکلتا ہے؟

ہندوتوا طاقتیں درحقیقت پاکستان سے نفرت نہیں کرتیں۔ اصل میں، وہ اس بات پر ناراض ہیں کہ نہرو کی قیادت نے انہیں ہندوستان کو پاکستان کی طرح کھلے عام اکثریتی تعصب کا شکار بنانے کی اجازت نہیں دی۔

چونکہ یہ قوتیں آزادی کی تحریک سے دور رہی تھیں، اس لیے وہ اپنے منصوبے کو عملی جامہ نہیں پہنا سکتیں جب تک کہ وہ جدید ہندوستان کے عظیم رہنماؤں کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ کریں۔

اپنے پڑوسی ممالک کے بدترین کرداروں کی تقلید کرتے ہوئے، وہ چند انتخابات میں کامیابیاں حاصل کر سکتے ہیں، جیسے حالیہ دنوں میں ترکی کے طیب اردوغان اور برازیل کے بولسونارو نے کیا۔ لیکن جو نقصان وہ اپنے اپنے ممالک کو پہنچائیں گے، اس کے گہرے اور طویل مدتی اثرات ہوں گے۔

یہ سبق ہمیں گزشتہ سو سال کی عالمی تاریخ سے ملتا ہے۔

دائیں بازو کی سیاست جھوٹ پر اور تاریخ و تاریخی شخصیات کی چنیدہ اور مفاد پرستانہ تعبیرات پر پنپتی ہے۔ لیکن اسی دوران، انسانیت نے یہ بھی سیکھا ہے کہ ایسی تمام قوتیں جلد یا بدیر اپنے انجام کو پہنچتی ہیں۔

اس انجام کو یقینی بنانے کے لیے، عوام کو تعلیم یافتہ کرنا ضروری ہے۔ متوازن اور بھرپور سوانح عمریوں کا مقامی زبانوں میں ترجمہ کرکے عوام تک پہنچانا ناگزیر ہے۔

سردار پٹیل کے تعلق سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بھارت اور بر صغیر کے مسلمانوں کو سردار پٹیل سے نالاں رہنے کی بڑی وجہ غالبا حیدرآباد کے "پولیس” ایکشن کی بربریت سے ہے۔

رفیق زکریا کی کتاب، سردار پٹیل اور ہندوستانی مسلمان (1997، صفحات 127 تا 141)، کے مطابق، یہ کارروائی سردار پٹیل کی قائدانہ حکمت عملی کا نتیجہ تھی، جو حیدرآباد کے نظام کی جانب سے بھارت کے ساتھ الحاق میں تاخیر اور ریاست میں بڑھتے ہوئے کمیونسٹ اور رضاکاروں کی شورش کے پیش نظر ناگزیر ہوگئی تھی۔ کتاب میں "پولیس” ایکشن کو ایک مضبوط فیصلہ قرار دیا گیا ہے، جو بھارت کے اتحاد کو محفوظ رکھنے کے لیے ضروری سمجھا گیا تھا۔ ایک دو مثالوں سے اس کا اندازہ ہوتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ

رضاکاروں کی ہندو مخالف شدت پسندی کی وجہ سے انتظامیہ کے درمیان انتقامی جذبہ آ گیا تھا؛ ریاستی کانگریس کے بھی ہندو اراکین کی بڑی تعداد نے جرائم کی زندگی اختیار کر لی تھی اور ان کی اس انتقامی حرکت میں ذاتی مفاد بھی شامل تھا۔ پٹیل کا خط بنام راجہ گوپال آچاریہ (15 نومبر 1948) میں بھی ایسی باتیں لکھی گئ ہیں۔ زکریا نے حسین شہید سہراوردی کے پٹیل کے نام ایک خط کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ سہراوردی نے پٹیل کو مبارک باد دی اور کہا کہ حیدرآباد کے بھارت میں ضم ہونے سے ملک کے مسلمانوں کا سر فخر سے اونچا ہو گیا ہے۔ راج موہن گاندھی نے اپنی کتاب، "سردار پٹیل: اے لائف” (1991) میں لکھا ہے کہ نواب چھتاری کی مدد سے نظام کو آمادہ کر لیا گیا تھا کہ یا تو وہ اپنی ریاست کو بھارت میں ضم کر لیں گے، یا اپنی ریاست میں جمہوری سسٹم قائم کریں گے اور اس میں ہندوؤں کو مناسب نمائندگی بھی دیں گے۔ لیکن قاسم رضوی نے نظام کو بری طرح گمراہ کر دیا اور ورغلا دیا۔ اور تب اندوہناک "آپریشن پولو” نافذ ہو گیا۔ اس پر تشکیل دی گئ سندرلال رپورٹ کو دہائیوں تک محققین کی دسترس سے باہر رکھا گیا۔ کمیونسٹ شاعر، مخدوم محی الدین کی کتاب، حیدرآباد، کے مطابق رضاکاروں کی تنظیم بنیادی طور سے دو ہزار مسلم خواص کی جماعت تھی جو زمین، سرمایہ، اور نظام افسر شاہی کے اعلی عہدے دار خواص پر مبنی تھی۔ وہ کسی بھی طور ریاست کے تمام مسلمانوں کی نمائندہ جماعت نہیں تھی۔

بہر کیف، ہندوستانیوں کو اپنی تاریخ سے سبق لینا ہوگا تاکہ ایک انسان دوست اور ترقی پسند معاشرہ تشکیل دیا جا سکے۔

بہ حیثیت مجموعی یہ کہا جا سکتا ہے کہ تاریخ کو مفاد پرستانہ انداز میں توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی یہ کوشش کوئی نئی بات نہیں۔ تاہم، سردار پٹیل کے کردار کا معروضی جائزہ لینے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ وہ فرقہ واریت کے سخت مخالف تھے اور ہندوستان کو متحد رکھنے کے لیے انہوں نے اہم اقدامات کیے۔ موجودہ حکومت کی سیاست سردار پٹیل کے اصل نظریات کو نظرانداز کرتے ہوئے صرف اپنے سیاسی فائدے کے لیے انہیں استعمال کر رہی ہے۔

یہ ضروری ہے کہ تاریخ، تاریخ نویسی، سوانح نگاری کو درست سیاق و سباق میں سمجھا جائے تاکہ ہم اس سے صحیح سبق لے سکیں اور ہندوستان کے سیکولر اور جمہوری تشخص کو برقرار رکھ سکیں۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare