کشمیر اور گورنروں کا چولی دامن کا ساتھ
افتخار گیلانی
کئی سالوں کے جنگ و جدل کے بعد جب چھ اکتوبر1586 ء کو مغل ا فوج نے وادی کشمیر میں داخل ہوکر اسکو دہلی سلطنت میں شامل کردیا، تب سے ہی اس خطہ پر بیشتراو قات گورنروں یا صوبیداروں کے ذریعے حکومت کی گئی ہے۔ 1947کے بعد شیخ عبداللہ سمیت کئی افراد کو امید تھی، کہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے کچھ ثمر ات کشمیر کو بھی نصیب ہونگے اور مقامی آبادی کو بااختیار بناکر اپنے اوپر حکومت کرنے کا موقع دیا جائیگا۔ مگر اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پچھلے 77 سالوں میں کشمیر پر نئی دہلی نے گورنروں یا پراکسی کے ذریعے 62 سال تک براہ راست حکومت کی ہے۔ بھارت کی دیگر ریاستوں کی طرز پر جہاں مقامی منتخب وزیر اعلیٰ اپنی ریاست کے معاملات چلانے میں آزاد ہوتا ہے، ایسی حکومت کشمیر کو مشکل سے 15سال سے کم ہی نصیب ہوئی ہے۔
افغان ، سکھ اور ڈوگرہ دور کے گورنروں کے ظلم و ستم تو کشمیر کی لوک داستانوں کا حصہ ہیں۔ جہاں افغا ن گورنر حاجی کریم داد خان ، اعظم خان سمیت کئی اور صوبیداروںکے ہاتھ خون سے رنگین ہیں اور ان کی پالیسیوں کی وجہ سے کھیت و کھلیان سنسان ہوگئے، وہیں سکھ دور کے گورنر دیوان موتی رام اور کرپا رام نے جب گائے کے ذبیحہ پر پابندی لگائی، تو گوشت رکھنے کی پاداش میں 19 افراد کو تختہ دار پر لٹکایا ۔ سرینگر کے ایک تاجر کو اس کے خاندان سمیت آگ کے حوالے کردیا گیا۔ خیر ان ظالم حاکموں کے ساتھ چند ایسے بھی تعینات کئے گئے، جن کے دل میں اللہ نے رحم کا مادہ بھی ڈالا تھا۔ ان میں سکھ دور کے آخری دو گورنر شیخ غلام محی الدین اور شیخ امام الدین تھے اور 1947کے بعد چند ایک کو بھی ان میں شامل کیا جا سکتا ہے۔
شیخ غلام محی الدین نے 22 سال کے بعد جامع مسجد سرینگر کا تالہ کھلوا کر اور اسکی مرمت کرواکے وہاں نماز ادا کرنے کی اجازت دی۔ سکھوں کے پہلے گورنر نے اس کو پہلے اصطبل میں تبدیل کردیا تھا، بعد میں اس پر تالہ لگا کروہاں نماز ادا کرنے پر پابندی لگادی تھی۔ غلام محی الدین کی وفات 1845 ء کو سرینگر میں ہوئی اور بتایا جاتا ہے کہ جنازہ میں ایک عوامی سیلاب امنڈ پڑا تھا۔ ان کی قبر کوہ ماران یا ہاری پربت پہاڑی پر واقع شیخ حمزہ مخدوم کی درگاہ کے احاطے میں ہے۔ جب برطانوی حکومت نے کشمیر کو ڈوگرہ حکمران گلاب سنگھ کو فروخت کیا تو امام الدین نے مقامی طور پر اس کے خلاف مزاحمت کی ۔ مگر بعد میں اس کو سختی کے ساتھ کچل دیا گیا اور امام الدین کو لاہور لے جایا گیا۔
اس لئے جب حال ہی میں بھارت کی وزار ت داخلہ کے ایک حکم کے مطابق جموں و کشمیر کے لیفٹنٹ گورنر منوج کمار سنہا کے اختیارات میں اضافہ کیا گیا، تو اس خطے میں شاید ہی کسی کو حیرت ہوئی ہوگی۔ 2018 سے کشمیر پر گورنروں کے ذریعے براہ راست نئی دہلی کی یا بالواسطہ طور پر وزیر اعظم نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت ہے۔ اس کا فائدہ اٹھا کر اس نے اسمبلی و پارلیمانی حلقوں کی جیری مینڈرنگ کرکے ان کو اپنے حق میں کرنے کی بھر پور کوششیں کی۔ اپنے پراکسیوں کو میدان میں اتار کر ان کے حق میں میدان تیار کیا۔ مگر پچھلے لوک سبھا انتخابات میں کشمیر کی تینوں سیٹوں پر اسکے پراکسیوں کو ہزیمت اٹھانی پڑی۔ جموں کی کئی سیٹوں پر بھی اس کے حمایت یافتہ امیدوارں کو نہایت ہی قلیل تعداد میں ووٹ پڑے۔ شمالی کشمیر سے محبوس آزاد امیدوار انجینیر رشید کی کامیابی نے تو اور بھی چولیں ہلا دیں۔ اس خطے میں شامل اسمبلی کی 18 نشستوں میں سے بس ایک ہی سیٹ پر بی جے پی کے پراکسی امیدوار کو معمولی برتری حاصل ہوئی۔
بتایا جاتا ہے کہ لوک سبھا کے انتخابی نتائج کے بعد غور کیا جا رہا تھا کہ کسی طرح اب اسمبلی انتخابات کو موخر کیا جائے۔ مگر پچھلے سال جب سپریم کورٹ نے 5 اگست 2019 کے فیصلوں کو جائز قرار دیکر ، داخلی خود مختاری ختم کرنے کے حکومتی اقدام پر مہر لگادی، تو اسی وقت حکومت سے عہد لیا کہ ستمبر 2024تک کشمیر میں اسمبلی انتخابات کرواکے وہ منتخب نمائیندوں کے حوالے اقتدار کرے۔ اب سانپ بھی مرے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے کے مصداق، مودی حکومت نے گورنر کو ہی اختیارات منتقل کئے، تاکہ منتخب وزیر اعلیٰ بطور ایک نمائشی عہدیدار کے مرکزی حکومت کے زیر اثر رہیگا۔
یہ ترامیم خاص طور پر جموں و کشمیر میں متوقع اسمبلی انتخابات کے تناظر میں نہایت ہی اہم ہیں۔ اسکی رو سے پولیس، پبلک آرڈر، ایڈووکیٹ جنرل یا اسکی مدد کے لیے دیگر لاء افسران کی تقرری کے کاغذات وزیر اعلیٰ اور چیف سیکرٹری ، لیفٹنٹ گورنر کے سامنے رکھیں گے۔ تقرری کا پروانہ اس کی صوابدید پر منحصر ہوگا۔ اسی طرح خاص کیسوں میں مقدمہ چلانے کی منظوری بھی لیفٹنٹ گورنر ہی عطا کرے گا۔ اسکے علاوہ لیفٹنٹ گورنر ہی اعلیٰ افسران اور انتظامی سیکرٹریوں اور کیڈر کے عہدوں کی تعیناتی کرے گا۔ یعنی ان افسران کی سالانہ کارکردگی کی رپورٹ پر وزیر اعلیٰ یا متعلقہ وزیر کے بجائے لیفٹنٹ گورنر دستخط کریں گے۔ اب ان حالات میں کون افسر وزیر اعلیٰ کو خاطر میں لائے گا۔ مونسپل کارپوریشن کے چیئرمین یا پنچایت کے سرپنچ تو پھر بھی مقامی افسران کے ذریعے تعمیر و ترقی کے کاموں میں رقوم کو خرچ کرنے پر نظر رکھنے کے مجاز ہوتے ہیں۔
ویسے بھی اگر چند گورنروں یعنی لکشمی کانت جھا اور نریندر ناتھ ووہرا کو چھوڑا جائے، تو کسی بھی گورنر کے جمو ں کشمیر کے کسی بھی منتخب وزیر اعلیٰ کے ساتھ تعلقات خوشگوار نہیں رہے ہیں۔ 1953میں جب صدر ریاست کرن سنگھ نے جب شیخ محمد عبداللہ کی حکومت کر برطرف کیا، ان کو خود بھی نہیں معلوم کہ کس قانون اور آئین کی کس شق کا استعمال کرتے ہوئے انہوں نے یہ قدم اٹھایا۔ ان کی برطرفی کے ایک سال بعد جموں و کشمیر کا آئین تیار ہوا ۔ اس وقت تک بھارت کے قوانین و سپریم کورٹ کا اطلاق بھی کشمیر پر نہیں ہوتا تھا۔
ابھی تک جموں کشمیر میں دس گورنر اور 2019کے بعد سے دو لیفٹنٹ گورنرتعینات ہوئے ہیں۔ گورنر جگموہن اور لیفٹنٹ جنرل ایس کے سنہا ، جو منتخب حکومتوں کے وقت گورنر تھے، نے وزراء اعلیٰ کا ناطقہ بند کیا ہوا تھا۔ جموں و کشمیر میں ریاستی حکومتوں پر مکمل کنٹرول رکھنے کیلئے نئی دہلی کی حکومتیں ہمیشہ سے ہی بے چین رہی ہیں۔ بی جے پی نے اسکو اب ایک انتہا تک پہنچا دیا۔
اندرا-شیخ معاہدے کے بعد، شیخ محمد عبداللہ فروری 1975 میں وزیر اعلیٰ بنے ۔ اس اسمبلی میں ان کے بس تین ہی اراکین تھے، باقی نئی دہلی کی ایما پر کانگرس کے اراکین ان کی حمایت کر رہے تھے۔ یہ صرف 1977 میں تھا جب جموں و کشمیر کی مقامی سیاسی جماعت، نیشنل کانفرنس اس سال موسم گرما میں ہونے والے انتخابات کے بعد اکثریتی حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی اور اپنی مدت مکمل کی۔ اس دوران گورنر ایل کے جھا کے ساتھ ان کی فریکوینسی بڑی اچھی رہی۔ وہ بھی وزیر اعلیٰ کے کام میں مداخلت نہیں کرتے تھے اور شیخ کی انا کا بھی خیال رکھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اگر کشمیر کو زور زبردستی کے بغیر بھارت میں شامل رکھنا ہے، تو اس کیلئے شیخ عبداللہ سے بہتر متبادل موجود نہیں ہے۔
اس دوران تقریبات میں ہمیشہ گورنر پہلے آتا تھا اور وہ وزیرا علیٰ کا استقبال کرتا تھا۔ پروٹوکول کے مطابق یہ الٹا ہونا چاہئے ، کیونکہ گورنر آئینی سربراہ یعنی صدر کا نمائندہ ہوتا ہے۔ جب 1981 کو ا ن کی جگہ پر بی کے نہرو، جو اندرا گاندھی کے رشتہ دار بھی تھے، کی تقرری ہوئی، وہ ایک سابق بیورکریٹ اور امریکہ میں بھارت کے سفیر رہ چکے تھے اور ان کو مین آف بک بھی کہا جاتا تھا۔ یعنی جو کچھ آئین کی کتاب میں درج ہے، اس پر من و عن عمل کروانا۔ تقریبات میں پہلے آنا ور پھر وزیر اعلیٰ کا انتظار کرنا ان کی برداشت سے باہر تھا۔
ایک بار جب سرینگر کے امر سنگھ کلب کی کسی تقریب میں دونوں مدعو تھے، تو گورنر نے اپنے سیکرٹری کو ہدایت دی، کہ جب وزیر اعلیٰ گھر سے تقریب کیلئے روانہ ہونگے، تو ان کو بتایا جائے تاکہ اس کے دس منٹ بعد وہ روانہ ہونگے۔ ان کا مقصد تھا کہ وزیرا علیٰ پہلے پہنچے، اور پروٹوکول کے مطابق وہ ان کا استقبال کریں۔ مگر یہی کچھ وزیر اعلیٰ کے گھر پر بھی ہو رہا تھا۔ انہوں نے اپنے سیکرٹری کو ہدایت دی تھی کہ راج بھون سے گورنر کی مومنٹ سے ان کو مطلع کریں، تاکہ وہ گورنر کے بعد اس تقریب میں پہنچیں۔
وقت گذرتا جا رہا تھا۔ دونوں میں کوئی بھی پہلے جانے پر تیار نہیں تھا۔ اسی دوران امرسنگھ کلب سے منتظمین کے فون آرہے تھے۔ تنگ آکر شیخ عبداللہ نے اپنے سیکرٹری کو اس اپائنٹمنٹ کومنسوخ کرنے اور منتظمین کو یہ بتا کر کہ وزیر اعلیٰ کو بھڑ نے ڈسا ہے ، معذرت کرے۔ راج بھون سے جب گورنرکے سیکرٹر ی نے وزیر اعلیٰ کی مومنٹ کے بارے میں جاننا چاہا، تو اس کو بھی یہی بتایا گیا کہ وزیر اعلیٰ کو بھڑ نے کاٹا ہے۔ جب سوٹ بوٹ میں ملبوس روانگی کا انتظاکر رہے گورنر کو گوش گزار کیا گیا، تو اس نے بھی منتظمین تک پیغام پہنچایا کہ ان کو بھی بھڑ نے ڈسا ہے اور وہ صاحب فراش ہیں، اس لئے معذرت ہے۔ امر سنگھ کلب میں جب بھڑ کے ذریعے دونوں گورنر اور وزیر اعلیٰ کو کاٹنے کی خبر پہنچی ، تو اکثر لوگ حیران و پریشان تھے، مگر جانکار افراد کو معلوم ہوگیا کہ یہ انا کی جنگ ہے اور اب یہ ریاست کو بھگتنی پڑے گی۔
اس دوران عبداللہ نے کم از کم یہ ظاہر کیا تھا کہ وہ ایک الگ وزیر اعلیٰ ہیں اور اپنے پاورز کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کرینگے۔ بی کے نہرو کی اپنی یاداشتوں کے مطابق عبداللہ دہلی سے انڈین ایڈمنسٹریٹو سروس کے افسران کو قبول کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرتے تھے اور ان افسران کو حساس پوسٹنگ بھی نہیں دیتے تھے۔ انہوں نے ہائی کورٹ کے کشمیری چیف جسٹس کی ٹرانسفر کرنے کی بھی معانعت کی تھی۔ انہوں نے اسمبلی سے آبادکاری کا بل پاس کروایا ، جس کی رو سے لائن آف کنٹرول کے ذریعے منقسم لوگوں کو کشمیر واپس آکر اپنی جائیدادوں حاصل کرنے کا موقعہ دیا گیا تھا۔ نہرو کا کہنا ہے کہ جب انہوں نے وزیر اعلیٰ کو بتایا کہ وہ اس بل پر دستخط نہیں کریں گے، کیونکہ یہ غیر آئینی ہے، تو شیخ نے ان کو کہا کہ اس بل کی آئینی یا غیر آئینی تشریح کرنا آپ کا نہ میرا کام ہے۔ اگر کسی کو اسکی آئینی حیثیت پر اعتراض ہے، تو عدالت اس کا تعین کریگی۔
مگر انا کی اس رشہ کشی کے باوجود بی کے نہروعمومی طور پر کچھ زیادہ مداخلت نہیں کرتے تھے۔ 1984میں جب اندرا گاندھی نے ان کو شیخ عبداللہ کی موت کے دو سال بعدوزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کو برطرف کرنے کیلئے کہا، تو انہوں نے منع کردیا۔ یعنی وہ واقعی مین آف بک تھے۔ جس کی وجہ سے ان کو گجرات ٹرانسفر کیا گیا اور ان کے جگہ جگ موہن کو بطور گورنر کشمیر بھیجا گیا اور چند ماہ کے اندہی جولائی 1984 میں اس نے منتخب حکومت کو برطرف کردیا۔ جگموہن کا کہنا تھا کہ انہوں نے قومی مفاد میں کام کیا اور انہیں عبداللہ کے خلاف کارروائی کرنی پڑی ۔ ان کا الزام تھا کہ ریاستی حکومت پنجاب اور پاکستان میں دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس موقف اختیار نہیں کر رہی تھی۔ 13 اکتوبر 1983 کو، ویسٹ انڈیز اور انڈیا کے درمیان سرینگر میں کرکٹ میچ کے دوران،جھنڈے لہرائے گئے تھے اور پاکستانی کھلاڑیوں کی قد آدم تصویریں لگائی گئی تھیں۔ مرکزی حکومت نے کھلے عام اپنی تشویش کا اظہار کیا کہ فاروق عبداللہ ریاست کا کنٹرول کھو رہے ہیں۔ مگر سوال ہے کہ کیا کرکٹ میچ کے واقعے کوجواز بنا کر منتخب حکومت کو برخاست کیا جانا جائز تھا ؟۔فاروق عبداللہ کے معزول ہونے کے صرف تین ماہ بعدہی اندرا گاندھی کو ان کے سکھ محافظ نے قتل کر دیا۔
کشمیر کے گورنر بھی کس قدر بے کس بے خبر اور وزارت داخلہ کے ربر اسٹیمپ ہوتے ہیں ، اس کی مثال ستیہ پال ملک ہیں، جو بھارت کی چار ریاستوں کے گورنر رہ چکے ہیں۔ 4 اگست 2019 کی شام تک وہ تین سابق وزرائے اعلیٰ سمیت سب کو بتا رہے تھے کہ انہیں جموں و کشمیر کے حوالے سے کسی آئینی تبدیلی کی تیاری جیسی کسی چیز کا علم نہیں ہے۔ انہوں نے 5 اگست 2019 تک کی تمام بے چینی اور گھبراہٹ کو افواہوں کی پیداوار قرار دیا ۔ دی وائر’ کے لیے کرن تھاپر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں، ملک کا کہنا تھا کہ 4 اگست 2019 کی شام دیر گئے، کہیں رات 10 سے 11 بجے کے درمیان، انھیں وزیر داخلہ امیت شاہ کا فون آیا جس نے انھیں کچھ کاغذات پر دستخط کرنے کو کہا، جو اگلی صبح ایک خصوصی طیارے کے ذریعے دہلی سے پہنچیں گے۔ چونکہ گورنر راج کے وقت کشمیر میں اسمبلی کے پاور گورنر کو منتقل ہوجاتے تھے ، اس لئے دفعہ 370کے مندرجات کے خاتمہ کیلئے ان کی سفارش درکار تھی۔ ستیہ پال ملک،نے اعتراف کیا کہ گورنر ہوتے ہوئے بھی وہ اس عمل میں شریک نہیں تھے اور اسی طرح لاعلم تھے، جس طرح دیگر آبادی تھی۔
ایک طرح سے یہ 25 جون 1975 کی رات کا اعادہ تھا جب اندرا گاندھی کے پرائیویٹ سکریٹری آر کے دھون نے صدر فخر الدین علی احمد کے سامنے ایمرجنسی کا حکم نامہ پیش کیا اوران سے قانون پر دستخط لئے تھے۔
ایک اہم سوال ہے کہ جموں و کشمیر میں ریاستی حکومت پر براہ راست یا بالواسطہ کنٹرول رکھنے کے لیے نئی دہلی کی حکومتیں ہمیشہ اتنی خواہش مند کیوں رہی ہے؟۔ بھارت کی دیگر ریاستیں ، جیسے کہ اتر پردیش، بہار، مغربی بنگال، مہاراشٹر، کیرالہ، تامل ناڈو اور اڑیسہ میںمقامی علاقائی جماعتوں نے کامیابی کے ساتھ حکومتیں بنائی ہیں اور انہوں نے اپنی مدت بھی مکمل کی ہے۔
کشمیر میں اگر گورنر راج نہ بھی ہوا، تب بھی مقامی پارٹیوں کو مجبور کیا جاتا ہے کہ قومی پارٹیوں کے ساتھ مل کر حکومت بنائیں، یعنی کہ منتخب وزیر اعلیٰ با اختیار نہ رہے۔اب تو گورنر کو اختیارات دینے کے بعد تو وہ کسی چپراسی تک کا بھی احتساب نہیں کرسکے گا۔
پچھلے 438 سالوں میں کشمیری عوام کے حقیقی منتخب نمائندوں یا خود کشمیریوں نے بہت قلیل مدت تک اپنے اوپر حکومت کی ہے۔ کشمیر میں جاری شورش ، ناراضگی یا مزاحمت کا یہ ایک اہم عنصر ہے، جس کا ادراک کسی کو نہیں ہے۔ بھارت نواز افراد کو بھی شکایت ہے کہ آخر اس خطہ کے ساتھ تامل ناڈو یا مغربی بنگال جیسا سلوک کیوں نہیں کیا جاتا ہے؟ بھارتی حکومت و سیاسی و دیگر اداروں کا برتاو ہی کھلے عام کہتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ اسلئے دیگر ریاستوں کے برعکس سلوک کیا جاتا ہے۔