کچھ رفعت سروش کے بارے میں
معصوم مرادآبادی
آج مشہور ترقی پسند شاعر، ادیب اور براڈ کاسٹر رفعت سروش کا یوم وفات ہے۔ انھوں نے30 نومبر 2008 کو دہلی میں وفات پائی۔جن لوگوں کو ریڈیو کے عروج کا زمانہ یاد ہے، ان کے لیے رفعت سروش کا نام نیا نہیں ہے۔یوں تو وہ ایک زود نویس ادیب،شاعر اور ڈرامہ نگارتھے، لیکن ان کی سب سے مضبوط شناخت ایک براڈ کاسٹر کی ہے۔انھوں نے برسوں ریڈیو کے شائقین کو ضیافت طبع کا سامان فراہم کیا۔ ایک زمانے میں ان کی آواز ریڈیو کی شناخت بن گئی تھی۔ یہ شنا خت انھیں آل انڈیا ریڈیو کے مشہورزمانہ پروگرام’اردو مجلس‘نے دی، جو ہرروز شام کو پونے آٹھ بجے اپنی مخصوص موسیقی کے ساتھ شروع ہوتا تھا۔ اس پروگرام کی دھن ہی مقبول نہیں تھی بلکہ اسے پیش کرنے کارفعت سروش کا اندازبھی نرالا تھا۔
رفعت سروش کو شاعری کے ساتھ ساتھ نثر بھی پر عبور حاصل تھا۔ ان کی زود نویسی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انھوں نے اردوشعر و ادب کو 87کتابیں دیں جبکہ 84سال کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔ شاعری، افسانہ، تنقید، ڈرامہ اور تاریخ جیسے موضوعات پر ان کی کتابیں آج بھی دلچسپی سے پڑھی جاتی ہیں۔ان میں ’جہان رقص ونغمہ‘(مجموعہ کلام)’پتہ پتہ بوٹا‘(آپ بیتی)’شعور آگہی (منظوم ڈرامے)’پانی پت (اشاعت1997)’قلم کے صفیر‘(1990)‘حرف حرف بمبئی‘(2008)’ڈگر پنگھٹ کی‘(1991)’آنسوؤں کے چراغ‘(2008)’بمبئی کی بز م آرائیاں‘(1986)’شاخ گل‘ان کی معروف کتابیں ہیں۔ ا ن کے علاوہ ان کی ادبی خدمات پر جوکتابیں شائع ہوئی ہیں، ان میں ڈاکٹر رضیہ حامد کے معروف جریدے ”فکر وآگہی“ کے دو خصوصی شماروں کے علاوہ ساہتیہ اکیڈمی نے ان کا ایک مونوگراف بھی شائع کیا ہے جو مرحومہ ڈاکٹر وسیم بیگم نے مرتب کیا تھا۔رفعت سروش پر شائع ہونے والی دیگر کتابوں میں محمدسالم کی ”بہارنوبہار: رفعت سروش“۔ ڈاکٹر عطیہ سلطان کی ”رفعت سروش“ شامل ہیں۔ایک کتاب ان کی بیٹی ڈاکٹر شبانہ نذیر نے ترتیب دی ہے جس کانام ہے ”نذررفعت سروش“۔ ڈاکٹر شبانہ نذیر اردو کی معروف شاعرہ ہیں اور آج کل دہلی اردواکادمی کی گورننگ کونسل کی سرکردہ ممبر ہیں۔
رفعت سروش کی علمی اور ادبی فتوحات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک ہمہ جہت فنکار تھے، لیکن افسوس کہ ان کے شعری اور فنی محاسن پر وہ توجہ نہیں دی گئی جس کے وہ صحیح معنوں میں مستحق تھے۔رفعت سروش شاعر، سوانح نگار، انشائیہ نگار، ادیب وصحافی اور سب سے بڑھ کر ایک معروف ڈرامہ نگار تھے۔خصوصاً انھوں نے ”اوپیرا“ کو جس بلندی پر پہنچایا وہ ان ہی کا حصہ ہے۔ان کی نثر انتہائی سادہ اور شگفتہ ہے۔ تین حصوں پر مشتمل انھوں نے اپنی سوانح عمری میں زندگی کے نشیب وفراز کی پوری داستان سپرد قلم کی ہے۔
رفعت سروش کا اصل نام سید شوکت علی تھا اوران کی ولادت2 جنوری 1926کو ضلع بجنور کے نگینہ میں ہوئی تھی۔ وہی بجنور جہاں سجادحیدر یلدرم، عبدالرحمن بجنور ی اور اخترالایمان جیسے مایہ ناز ادیب اور شاعر پیدا ہوئے۔ان کا تعلق نگینہ کے سید خاندان سے تھا۔ ان کے والد کا نام سیدمحمدعلی اور والدہ کا کنیز فاطمہ تھا۔ ان کی ابتدائی تعلیم نگینہ اور موانہ (میرٹھ)میں ہوئی۔ موانہ سے انھوں نے 1935میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اس کے بعد وہ بمبئی چلے گئے اور وہاں ہندی ودیا پیٹھ سے ’بھاشا رتن‘کا امتحان پاس کیا، جو بی اے کے مساوی تھا۔1945 میں انھوں نے اپنے کیریر کا آغاز آل انڈیا ریڈیو بمبئی سے کیا اور وہاں اپنے دور کے عظیم ادیبوں اور شاعروں کی صحبت اٹھائی۔ اس کا تذکرہ دلچسپ انداز میں انھوں نے اپنی کتاب ”بمبئی کی بزم آرائیاں“ میں کیا ہے۔ وہ 13سال آل انڈیا ریڈیو بمبئی سے وابستہ رہنے کے بعد دہلی آگئے اور یہاں 26 سال ریڈیو میں ملازمت کی۔میں نے 1982میں جب آل انڈیا ریڈیو کے جریدے ’آواز‘ سے اپنا کیریر شروع کیا تو انھیں اردو مجلس میں کام کرتے ہوئے دیکھا۔وہ مجموعی طورپر 39برس آل انڈیا ریڈیو سے وابستہ رہ کر31جنوری 1984کو سبکدوش ہوئے۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام ”وادی گل“ 1963میں منظرعام پرآیاجبکہ دوسرا مجموعہ ”ذکر اس پری وش“ کا 1966میں شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد انھوں نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ ان کی زندگی میں بڑاسانحہ 15/دسمبر1987 کو پیش آیا جب ان کی اہلیہ صبیحہ سروش کا انتقال ہوا۔یہ ان کے لیے ایک بہت بڑا غم تھا۔ باقی ماندہ زندگی انھوں نے اسی غم کے سہارے گزاری۔ حالانکہ یہ شعر انھوں نے خود ہی کہا تھا ۔
عمر بھر ایک ہی دامن سے لپٹ کر رونا
کیا اسی جبرِ محبت کو وفا کہتے ہیں