۲۰۲۴کا انتخابی زلزلہ۱۹۷۷ سے کم نہیں
انگریزی تحریر:سی. رام منوہر ریڈی
مترجم: ڈاکٹر محمد اعظم ندوی استاذ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد
ووٹ کی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھارت کے رائے دہندگان نے اجتماعی طور پر ۲۰۲۴ میں وہی کامیابی حاصل کی ہے جو ان کے آباء واجداد نے ۱۹۷۷ میں حاصل کی تھی، جب اندرا گاندھی کو ایمرجنسی کے۲۱ مہینوں کی طویل مدت کے بعد انتخابات میں شکست ہوئی تھی،۱۹۷۷ کی طرح، یہ نہ شہری ووٹرزتھے، نہ تعلیم یافتہ یا متوسط طبقہ کے لوگ جنہوں نے انا پرست لوگوں کی گردن جھکا دی ہے، یہ دیہی باشندے، حاشیہ پر کھڑے پسماندہ اور بے روزگار لوگ تھے جنہیں ایک دہائی تک فریب نظر کا شکار بنایا گیا، اور بالآخر انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب وقت آچکا ہے کہ صاف کہہ دیا جائے:”بس اب بہت ہو چکا”۔
یہ سچ ہے کہ نتائج میں علاقائی تفاوت موجود ہے، نئے علاقہ (اڈیشہ) میں بی جے پی کی فتح، پرانے علاقوں (گجرات اور مدھیہ پردیش) میں اس کااستحکام، اور کچھ ریاستوں (تمل ناڈو اور کیرالہ) میں اس کے ووٹ شیئر میں اضافہ، یہ ایک پہلو ہے، لیکن اصل کہانی یا بڑی تصویر جو اہمیت رکھتی ہے وہ یہی کہ یہ نتیجہ مودی کی ناقابل شکست شخصیت کے طلسم کو توڑ چکا ہے، ایمرجنسی کے اختتام پر بھی علاقائی تفاوت موجود تھا، اندرا گاندھی کو شمال، مشرق اور مغرب میں شکست ہوئی تھی؛ جب کہ کانگریس نے جنوبی ہند میں اپنی پوزیشن برقرار رکھی تھی، لیکن اس وقت کی بھی بڑی تصویر کانگریس کی شکست تھی۔
واٹس ایپ یونیورسٹی ایسے کسی موازنہ پرکوئی معقول مباحثہ تو نہیں کرسکتی؛ چوں کہ اس کو یہ ہنر آتا ہی نہیں، ہاں اس پر بھپتی ضرور کسے گی کہ ۱۹۷۷ میں اندرا گاندھی کی شکست فاش اور اقتدار سے بے دخلی کے بالکل برعکس، نریندر مودی آج بھی عہدہ پر موجود ہیں، اور وزیر اعظم کے طور پر تیسری مدت شروع کر چکے ہیں۔
آئیے ایک قدم ذرا پیچھے ہٹ کر ذہن ودماغ کے دریچے کھولیں اور دیکھیں کہ اصل میں ہوا کیا ہے، اگر۱۹۷۷ میں رائے دہندگان نے آئینی طور پر مسلط کردہ آمرانہ طرز حکومت کو مسترد کر دیا تھا، تو۲۰۲۴ میں، انہوں نے نریندر مودی کے غیر آئینی طور پر مسلط کردہ آمرانہ طرز حکومت کو جھٹکا دیا ہے، اگر ۱۹۷۷ میں، بھارت کے ووٹروں نے اندرا گاندھی کا بیس نکاتی پروگرام قبول کرنے سے انکار کیا تھا، تو انہوں نے اب”مودی کی ضمانتوں” کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے، اگر۱۹۷۷ میں، انہوں نے”ٹرینیں وقت پر چل رہی ہیں”کے نعرہ کو مسترد کر دیا تھا، تو ۲۰۲۴ میں، انہوں نے اپنی عام بھیڑ بھاڑ والی ٹرینوں کے مسائل پر نظریں مرکوز رکھیں ،اوروندے بھارت ٹرینوں کے کھوکھلے نعروں اور محدود جلووں کو کو مسترد کردیا ہے۔
صرف ایک چیز جس کی وجہ سے ۲۰۲۴ میں ووٹرز بی جے پی کو عہدے سے ہٹانے میں ناکام رہے وہ یہ ہے کہ ا نہیں ایک ایسے میدان جنگ میں اپنا ووٹ ڈالنا پڑا جہاں ہر چیز ان کے خلاف تھی، انہیں ایک جنگی مشین کا مقابلہ کرنا پڑا جو بلاشبہ ۱۹۷۷ میں اندرا گاندھی کی مشین سے کہیں زیادہ طاقتور تھی۔
ایمرجنسی کے دوران سیاسی مخالفین کی من مانی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری تھا؛ میڈیا مطیع وفرماں بردارتھا، عدالتیں، چند معمولی استثنا کے ساتھ، سرنڈر کر گئی تھیں، بیوروکریسی خوف سے لرز اٹھی تھی، اور کاروباری حکومت کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے، ہوا میں خوف کی بو تھی، اندرا گاندھی اور نریندر مودی کے آمرانہ طرز حکومت کے درمیان باریک فرق پر تو بہت دیر تک بحث کی جا سکتی ہے، لیکن بڑافرق یہی ہے کہ حالیہ برسوں میں ایک زیادہ بڑی اور خوفناک قوت کا سامناہے،اس میں کوئی شک نہیں کہ ایمرجنسی کے دوران بھی خوف ودہشت کا ماحول تھا،اور اسی وجہ سے حکومت کی ہر بات ماننا مجبوری تھی؛لیکن حالیہ برسوں میں یہ مجبوری ولاچاری اپنی آخری سطح پر ہے، مرکزی حکومت کے تمام ادارے، آئینی ادارے، عدالتیں، میڈیا، پولیس اور بیوروکریسی نے سرکاری طور پر موصول ہونے والی تمام تر سیاسی ہدایات کو قبول کرلیاتھا، انہیںیہ یقین تھا کہ مودی حکومت اور اس کے سیاسی نظام کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے وہ صحیح کام کر رہے ہیں۔
۱۹۷۷ میں، ایمرجنسی کے دوران انتخابات منعقد ہوئے، تاہم، انتخابات سے پہلے، اپوزیشن کے رہنماؤں کو جیل سے رہا کر دیا گیا، جب پابندیاں ہٹا لی گئیں توپریس نے اپنی آواز دوبارہ پائی، اور الیکشن کمیشن چھ سال کے وقفہ کے بعدآزادانہ طور پر لوک سبھا کے انتخابات کرا پایا، آپ۱۹۷۷ کے انتخابات کو مکمل طور پر’منصفانہ’ نہیں کہہ سکتے، لیکن اپوزیشن اور ووٹرز جانتے تھے کہ انہیں جنگی پیمانہ پر یہ مقابلہ کرنا ہے،اور وہ ان کے لیے ممکن تھا۔
۲۰۲۴ میں ایسا نہیں ہوا، انتخابات سے پہلے، ہم نے بار بار اپوزیشن کے رہنماؤں کو جیل میں بند دیکھا، کمزور سیاسی قائدین کو دھمکایا گیا ،اورسب سے بڑے حزب اختلاف کے بینک اکاؤنٹس کو ابتدائی طور پر منجمد کیا گیا، میڈیا، چند استثنا کے ساتھ، بی جے پی کی حمایت میں مصروف رہا اور”اب کی بار ۴۰۰ پار” کے نعرہ کو پھیلاتا رہا، اگر میڈیا نے کوئی سوال کیا تو وہ اپوزیشن پر تھا؛ اینکرز، جنہوں نے اپنی روحیں فروخت کر دی تھیں، نے ایک ناقابل تسخیر بادشاہ کی تصویر بنانے کی کوشش کی جسے زندگی بھر کے لیے تاج پہنایا جانا تھا، اور جب بی جے پی کی طرف سے مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے سب سے زیادہ ظالمانہ مہم چلائی گئی، تو الیکشن کمیشن خاموش رہا۔
پھر بھی، اس سال ووٹرز نے، نصف صدی قبل کی طرح، پہچان لیا کہ یہ کوئی معمولی الیکشن نہیں تھا، اس بار بھارت کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا تھا، انہیں فیصلہ کرنا تھا کہ وہ منتخب شدہ خود مختاری اور نفرت سے تقسیم شدہ معاشرہ کے حق میں ووٹ دینا چاہتے ہیں یا نہیں، انہیں فیصلہ کرنا تھا کہ آیا وہ جھوٹے وعدوں کی برسات اور مستقبل کی قومی عظمت کے سراب کے عوض خریدے جائیں گے یا نہیں، انہوں نے دانشمندی سے فیصلہ کیا کہ بس بہت ہو چکا، اپنی انگشت شہادت کی طاقت کے ساتھ، انہوںنے فیصلہ کیا کہ صرف بی جے پی کو اس کی مطلوبہ اکثریت سے محروم کرنا کافی نہیں ، اسے اقلیت میں تبدیل کرنا ضروری ہے، ہمیں ان لوک سبھا انتخابات میں بی جے پی کو ملنے والی سیاسی شکست کا اعتراف اور لوگوں کے اندازوں کا احترام کرنا چاہیے، ہمیں”تیسری تاریخی میعاد” (ہاں، مگر ایک اتحاد کے ساتھ، اور بی جے پی کی اکثریت کے بغیر) یا ”مودی 3.0”(ہاں، مگر پھر، صرف اتحادی ساتھیوں کی حمایت کے ساتھ) کے دعووں سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے، ایک سیاسی پارٹی جو کچھ ہفتوں پہلے تک اپنے ناقابل تسخیر ہونے کا دعویٰ کر رہی تھی اور”۱۰۰۰ سال کی وراثت” کی منصوبہ بندی کر رہی تھی، انتخابات میں بے بس کر دی گئی ہے، بی جے پی نے اقتدار پر قبضہ برقرار رکھا ہے، لیکن اسے ایک کراراجھٹکا لگا ہے اور ایک سبق سکھایا گیا ہے۔
اگر تمام آئینی ادارے ایمانداری سے اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے اور حکومتی عہدے داروں کو اپوزیشن پر نشانہ سادھنے کی اجازت نہ دی جاتی، تو واقعی آزاد اور منصفانہ انتخابات میں نتیجہ ۱۹۷۷ کی طرح مکمل ہوتا۔
بھارت کے ووٹرز کو آئندہ انتخابات میں اس کاز کو مکمل کرنے کا اعتماد ویقین حاصل کرنے سے پہلے اپنی حصول یابیوں کی وسعت پر فخر کرنا چاہیے، یہی وجہ ہے کہ ہم نریندر مودی اور بی جے پی کو عاجزانہ اور خاکسارانہ انداز میں دیکھ رہے ہیں۔
نریندر مودی اور بی جے پی پارلیمنٹ میں اقلیت میں تبدیل ہونے کے باوجود یقینی طور پر ہار نہیں مانیں گے، وہ اقتدار میں رہیں گے، ان کے پاس پیسہ کی طاقت ہے، اقتدار کا بھار وزن ان کے کو کنٹرول میں ہے، اور بڑے کاروباری ادارے ان کے ساتھ ہیں، وہ اپنا طریقۂ کار تبدیل نہیں کریں گے؛ کیوں کہ ان کی فطرت ثانیہ ہے کہ وہ جمہوریت کا احترام نہیں کرتے، لیکن شکست کا مزہ چکھنے کے بعد اب وہ کمزور ہو چکے ہیں، جو کہ ایک ایسی چیز ہے جس سے ہمیں ۱۹۷۷ کے بعد کے سب سے اہم انتخابات سے اعتماد حاصل کرنی چاہیے، اگر ۲۰۲۴ میں”۴۰۰ پار” کا نشانہ حاصل ہو جاتا، تو ہمیں ابھرتی ہوئی خود مختاری کو روکنے کی بہت کم امید ہوتی، رائے دہندگان نے اپوزیشن کو این ڈی اے حکومت سے پارلیمنٹ اور سڑکوں پر سوال کرنے کا اختیار دیا ہے، اور انہوں نے آئینی اداروں کو بھی اشارہ دے دیا ہے کہ ان پر بھی بھارت کی جمہوریت کے تحفظ کی بھاری ذمہ داری ہے، ہم بھارت کے ووٹروں سے اس سے زیادہ کچھ نہیں مانگ سکتے تھے۔