امارت شرعیہ بہار ،اڈیشہ، جھارکھنڈ اور بنگال کے ہنگامہ کا قضیہ نامرضیہ

میرا مطالعہ

مولانا ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی شمسی

امارت شرعیہ ،بہار ، اڈیشہ، جھارکھنڈ اور بنگال ملک کا ایک اہم اور باوقار ادارہ ہے۔اس نے ملک ہی نہیں بلکہ بیرون ملک کی بھی رہنمائی کی ہے۔ اس کا قیام ۱۹۲۱ء میں عمل میں آیا، اس طرح اس کے قیام کو ۱۰۰؍ سال مکمل ہوچکے ہیں۔

امارت شرعیہ بہار ،اڈیشہ، جھارکھنڈ اور بنگال کے ہنگامہ کا قضیہ نامرضیہ
امارت شرعیہ بہار ،اڈیشہ، جھارکھنڈ اور بنگال کے ہنگامہ کا قضیہ نامرضیہ

امارت شرعیہ میں بحرانی حالات کئی دفعہ پیدا ہوئے، مگر اللہ تعالیٰ نےہر موقع پر اس کی حفاظت کی۔ ایک بڑا ہنگامہ خیز معاملہ اس وقت سامنے آیا ،جب سابق امیر شریعت مولانا سید محمد ولی رحمانی صاحب کا وصال ہوگیا اور نئے امیر شریعت کے انتخاب کا معاملہ سامنے آیا، مگر اللہ تعالیٰ نے اس وقت بھی امارت شرعیہ کی حفاظت کی۔

             موجودہ وقت میں پھر امارت شرعیہ میں ہنگامہ آرائی کی خبر سامنے آئی ، چونکہ میں نے اس ادارہ کا بڑی گہرائی سے مطالعہ کیا ہے، اس لئے اس کے اصول وضوابط سے پوری طر ح واقف ہوں، اس لئے امارت شرعیہ کے دستور اور ٹرسٹ ڈیڈ کی روشنی میں اس کا تجزیہ پیش کیا جارہا ہے۔

(۱) امارت شرعیہ ملک کا ایک اہم اور باوقار ادارہ ہے، اس کو ۱۰۰؍ سال مکمل ہوچکے ہیں۔

(۲) کوئی بھی ادارہ اس کے دستور سے چلتا ہے، کسی ہنگامہ سے نہیں، امارت شرعیہ کا بھی دستور ہے، اس کا ٹرسٹ ڈیڈبھی ہے، جس کے تحت یہ ادارہ چل رہا ہے۔

(۳) امارت شرعیہ کے دستور وٹرسٹ ڈیڈ کے مطابق اس کی کمیٹیاں ہیں، مجلس شوریٰ، مجلس ارباب حل وعقد اور ٹرسٹ کمیٹی۔ دستور اور ٹرسٹ ڈیڈ میں مذکورہ کمیٹیوں کے اختیارات کا مکمل تذکرہ ہے ، جس کے تحت یہ ادارہ کام کررہا ہے۔

(۴) امارت شرعیہ میں سب سے اہم عہدہ امیرشریعت کا ہے، دستور اور ٹرسٹ ڈیڈ کے مطابق یہ امارت شرعیہ کا سب سے اہم اور بااختیار عہدہ ہے۔

میں بھی امیرشریعت کے انتخاب کے موقع پر اس کی سرگرمیوں میں شریک رہا، اس لئے پہلے اس پر روشنی ڈالی جاتی ہے، اس انتخاب کے موقع پر انتخاب کمیٹی بنائی گئی، میں بھی اس کا ایک ممبر رہا۔ امارت شرعیہ کے دستور میں تحریر ہے کہ امیرشریعت کو عالم ہوناچاہئے، امیدواروں کے دور میں موجودہ امیرشریعت مولانا فیصل ولی رحمانی صاحب کا نام بھی شامل تھا،اس لئے اس کی جانچ کے لئے علماء کی جانچ کمیٹی بنائی گئی کہ وہ عالم ہیں کہ نہیں ؟ علماء کمیٹی نے یہ فیصلہ دیا کہ وہ عالم کے زمرہ میں آتے ہیں ،اس لئے انہیں امیرشریعت کے انتخاب میں شامل کرنے اور منتخب ہونے میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے۔ اس فیصلہ کے بعد ہی انتخاب کا عمل آگے بڑھایا گیا۔ انتخاب میں کئی امیدوار کے کھڑے ہونے کا معاملہ سامنے آرہا تھا، اس لئے اس کے لئے باضابطہ تیاری کی گئی۔ انتخاب سے پہلے عام اجلاس میں امیدواروں سے نام طلب کیا گیا، تو تین امیدواروں کا نام سامنے آیا، ان میں سے ایک نے اپنا نام واپس لے لیا، اس طرح دو نام باقی رہ گئے۔ اس لئے جمہوری طریقہ کے مطابق دونوں کے درمیان ووٹنگ کے ذریعہ انتخاب عمل میں آیا۔ صاف ستھرے ماحول میں ووٹنگ ہوئی، امیر شریعت کے لئے مولانا احمد ولی فیصل رحمانی صاحب منتخب قرار دیئے گئے۔ چنانچہ وہ مجلس ارباب حل وعقد کے ذریعہ منتخب امیرشریعت ہیں۔

موجودہ وقت میں پھر امارت شرعیہ میں ہنگامہ کی خبر سامنے آرہی ہے، میں نے اس کا جائزہ لیا کہ ہنگامہ کی وجہ کیا ہے؟ تو اس میں دوباتیں سامنے آئیں۔ ایک یہ کہ وہ عالم نہیں ہیں ، اور دوسرے یہ کہ وہ ہندوستانی شہری نہیں ہیں، اس لئے ٹرسٹ کمیٹی کے ذریعہ ان کو معزول کیا جاتا ہے ، جبکہ منتخب امیر کو ٹرسٹ کمیٹی کے فیصلہ سے معزول کرنے کا اختیار اس کمیٹی کو نہیں ہے

      امیر کو معزول کے سلسلہ امارت شرعیہ کے دستور اور ٹرسٹ ڈیڈ کے مطابق چند باتیں تحریر ہیں:

(۱) امیرشریعت کے انتخاب کا حق مجلس ارباب حل وعقد کو ہے۔

(۲) امیرشریعت کو معزول کرنے کا حق بھی مجلس ارباب حل وعقد ہی کو ہے۔

(۳) امارت شرعیہ کے دستور اور ٹرسٹ ڈیڈ کے مطابق امیر شریعت کو معزول کرنے کا حق مجلس ارباب حل وعقد کے سوا کسی دوسری کمیٹی کو نہیں ہے۔ اس طرح یہ کہنا کہ ٹرسٹ کمیٹی نے امیرشریعت کو معزول کردیا ، یہ امارت شریعت کے دستور اور ٹرسٹ ڈیڈ کے خلاف ہے۔

جہاں تک الزامات کی بات ہے ،تو میں نے ٹرسٹ کمیٹی کے ذریعہ امیرشریعت کو معزول کرنے کی وجوہات کا جائزہ لیا، تو اس میں دوباتیں اہم ہیں۔ ایک یہ کہ وہ عالم نہیں ہیں، دوسرے یہ کہ وہ ہندوستانی شہری نہیں ہیں۔

جہاں تک عالم نہ ہونے کی بات ہے تو اس کے لئے انتخاب سے پہلے علماء کمیٹی نے یہ فیصلہ دے دیا ہے کہ وہ عالم کے زمرہ میں آتے ہیں، اس پر موافقین اور مخالفین سبھی کا اتفاق ہوچکا ہے، اس لئے اب اس معاملے کو اٹھانا اتفاق رائے کے خلاف ہے۔

جہاں تک ہندوستانی شہری نہ ہونے کی بات ہے، تو یہ قانونی معاملہ ہے، اس کو قانون طے کرے گا ، البتہ میں نے اس سلسلے میں کئی اہم ماہرین وکلاء سے مشورے کئے، انہوں نے بتایا کہ امارت شرعیہ ایک این جی او ہے اور این جی او کے عہدیدار ہونے کے لئے ہندوستان کا شہری ہونا ضروری نہیں ہے۔ البتہ ایسے شخص کے عہدیدار ہونے سے دوسرے خطرات آسکتے ہیں، یہ ایک الگ موضوع ہے۔

یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ ان کی بہت سی باتیں دین وشریعت کے خلاف ہوتی ہیں، تو اس سلسلے میں عرض ہے کہ میں نے ان ویڈیوز کو سنا ہے، مختلف مسائل میں علماء کے مختلف رائیں ہیں، ان کو سمجھانےکے لئے ان اختلافات کی نوعیت کو لوگوں کے سامنے پیش کیا گیا ہے، اس طرح کے ویڈیو سے دین سے انحراف واضح نہیں ہوتا ہے اور نہ ثابت ہوتا ہے ۔

مذکورہ تجزیہ کی روشنی میں امارت شرعیہ کے امیر کو مجلس ارباب حل وعقد کے سوا کسی دوسری مجلس کو معزول کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ میرے مطالعہ کے مطابق ان پر لگائے گئے الزامات کی بھی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہے، اس لئے امارت شرعیہ کی حفاظت اور اس کے وقار کو برقرار رکھنا ملت اسلامیہ کی ذمہ داری ہے۔ اللہ تعالیٰ اس ادارہ کو شر اور فتنے سے حفاظت فرمائے۔

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare