تذکرہ شعرائے مدھوبنی

تذکرہ شعرائے مدھوبنی
تذکرہ شعرائے مدھوبنی

احمد سجاد قاسمی

زیر نظر کتاب تذکرہ شعرائے مدھوبنی جناب مولانا حسیب الرحمان شائق مدظلہ نے میری طلب پر مجھے عنایت فرمائی ۔ مولانا خود جہاں عظیم المرتبت عالم دین ہیں وہیں صاف و شستہ زبان کے شاعر بھی ہیں ۔ دارالعلوم دیوبند کے فاضل حدیث اور فاضل فقہ و افتاء ہیں ۔۔انکے کلام میں نفاست وپاکیزگی پاءی جاتی ہے ۔شاءق مدھوبنی کی تاریخی اور علمی ،ادبی اور مخصوص ثقافتی بستی یکہتہ سے تعلق رکھتے ہیں ۔یہ بستی مدھوبنی ضلع میں علم و ادب میں ممتاز حیثیت رکھتی ہے ۔ اس کتاب کو شاءق صاحب نے ترتیب دی ہے ۔ ظاہر ہے پورے ضلع کے شعراء کا احاطہ کرنا ، انکے حالات و اشعار سے واقفیت حاصل کرنا پتہ ماری کا کام ہے ، یہ تحقیق کی وہ منزل ہے جس کی راہیں خارزار ہیں اور جسے طے کرنا اہل ہمت و حوصلہ کیلئے ہی ممکن ہے ۔

اس کتاب میں تقریباً چالیس شعرائے کرام کا تذکرہ ہے ۔۔ کتاب کے شروع میں اردو زبان و ادب کے عظیم محقق اور نقاد جناب حقانی القاسمی اور زبان و ادب کے رمز شناس مشہور صحافی اور عظیم مصنف مولانا مفتی ثناء الہدی قاسمی کی بیش قیمت تحریریں ہیں ۔عرض مرتب کے عنوان سے شائق صاحب کا مبسوط مقدمہ ہے جس میں مدھوبنی کی تاریخی حیثیت ،علمی مقام، اردو شاعری و نثر نگاری اور صحافتی کارناموں کا تفصیل سے ذکر خیر کیاہے جو بہت اہم حصہ ہے۔۔۔۔ اس سے معلوم ہوا کہ اردو شاعری کا مرکز اس ضلع کی تاریخی ،علمی و ثقافتی بستی ململ میں اکثر چھوٹے بڑے یہاں تک کہ آل انڈیا مشاعرے بھی منعقد ہوءے ہیں اور 1958 کے عظیم الشان تاریخی مشاعرے میں علامہ شفیق جونپوری ، مولانا عامر عثمانی اور حفیظ میرٹھی جیسے اساتذہ فن شرکت فرما چکے ہیں۔

موضع یکہتہ اور شکری میں بھی شعری و ادبی انجمنیں قاءم ر ہی ہیں دوسرے مختلف گاؤں جیسے برداہا میں بھی شعری و ادبی محفلیں قاءم رہی ہیں ۔۔ اسی طرح حکومت بہار کی ہدایت پر اردو زبان سیل مدھوبنی کے زیر اہتمام فروغ اردو سیمینار و مشاعرے کا انعقاد بھی چند سالوں سے ہورہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے مشاعرے میں ایک مرتبہ دوستوں کے اصرار پر مجھے بھی شریک ہونا پڑا تھا جس میں ایک غزل اور ایک نظم جس کا عنوان اردو زبان ہے میں نے سنایا۔

بہر حال یہ کتاب شعر و ادب اور مدھوبنی و بہار کی تاریخ و سوانح سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے بہت بڑا علمی تحفہ ہے۔
مقدمہ میں شاءق صاحب نے کھلے دل سے اعتراف کیا ہے کہ اس ضلع کی شخصیات نے بھی زبان و ادب کی ترویج و اشاعت میں بھرپور حصہ لیا ہے ۔ جن میں بیرسٹر محمد شفیع مرحوم ،جناب احمد غفور, جناب عبد الشکور ،جناب انیس احمد ،ڈاکٹر شکیل احمد ،عزیز نورالدین عرف چھوٹو بابو ،محمد طاہر حسین ،جناب محمد شفیق انصاری ،جناب عبد الحی پیامی ،جناب عبد الحنان انصاری اور جناب ڈاکٹر فیاض احمد شامل ہیں۔

اخیر میں مناسب سمجھتا ہوں کہ چند پسندیدہ اشعار زیر نظر کتاب سے تحریر کردوں۔

حافظ عبد الوحید وحید ململی کا شعر ہے۔

آپ کو جانا ہی بھایا ہے تو بہتر جاءیے
غم زدوں کی بھی مگر تسکین کچھ کرجاءیے

مولانا محمد اسلم آسی قاسمی

ابر خاموش کہکشاں۔ چپ ہے
یہ زمیں چپ ہے آسماں چپ ہے
چوٹ کھاکر نڈھال ہے انساں
لب ہے خاموش اور زباں چپ ہے

جنابِ مطیع الرحمن احقر ململی کے اشعار دیکھیے کہتے ہیں

نہ جانے کس نے راز زندگی سمجھا دیا مجھ کو
کہ اب دنیا سراسر خواب سی محسوس ہوتی ہے
تری چوکھٹ پہ جب جھکتی ہے یہ عاجز جبیں اپنی
تو دل میں ایک شان خسروی محسوس ہوتی ہے

ماسٹر انیس الرحمٰن انیس یکہتوی کے دو اشعار ملاحظہ ہوں

در اپنے گھر کا اگر بند ہی۔ سدا رکھیے
کہیں کہیں سے دریچہ مگر۔ کھلا رکھیے
گزر ضروری ہے تازہ ہوا کا اندر بھی
کچھ اپنے باہری موسم کا بھی پتا رکھیے

مولانا فضیل احمد عنبر ناصری صاحب کے اشعار ملاحظہ فرمالیں

حدیثِ مرسلاں ہو جا خدا کا ترجماں۔ ہوجا
تری فطرت ہے افلاکی سراپا آسماں ہو جا۔
نو رکھ آلودہ اپنا دامن تقوی عداوت سے
حمیت میں محبت میں جہاں بان جہاں ہوجا

قاصر مکرم پوری کے چند اشعار ملاحظہ ہوں کہتے ہیں

دل گرفتہ ہو گرفتار انا ہو کیا ہو
کچھ کہو بھی کہ زمانے کو پتا ہو کیا ہو
کیوں پڑے رہتے ہو دن رات خموشی اوڑھے
خود سے ناراض ہو دنیا سے خفا ہو کیا ہو

قاصر صاحب کے چند اشعار مزید ملاحظہ کیجیے

اپنی پلکوں کو بھگوءیں زلف کو برہم کریں
حادثوں کا سلسلہ موقوف ہو تو غم کریں
اب زمیں پر کون چلتا ہے اڑا کرتے ہیں لوگ
کس کا استقبال اب رستے کے پیچ و خم کریں
تجھ کو پانے کی یہی ہے شرط تو اے بے نیاز
ہم کو بھی توفیق دے سر ہم بھی اپنا خم کریں

ایک اور شعر گوارا فرمائیں

ہم اپنے مخلصوں سے بہت دور ہوگءے
شامت ہماری آءی کہ۔ مشہور ہوگءے۔

اس کتاب میں کہنہ مشق عظیم شعراء کا بھی تذکرہ ہے اور جدید صاحب طرز شعراء کا بھی ۔۔۔نمونہ کلام سبھی کے موجود ہیں ۔ جو پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare