رسل کےفکرانگیز مضامین: مشمولات و تبصرہ

مفتی عبدالرافع زیدی

تصنیف و مصنف من پسند ہو اور اسلوب علمی وتخلیقی ہو تو اس کا مطالعہ اور سردست اس پر تبصرہ میری ترجیحات میں شامل ہے، قاضی جاوید صاحب نے ’’رسل‘‘ کےعمدہ اورچیدہ مضامین کا ترجمہ کیا ہے، اس کی جستجو میں ’’جمشید اقبال‘‘ کے منتخب مضامین بعنوان ’’رسل‘‘ کےفکرانگیز مضامین کا شاہکار اور بعض نسبتاغیرمعروف مضامین کامجموعہ دستیاب ہوا، جس میں مترجم نے ’’برٹرینڈ ارتھرولیم رسل‘‘ کےبالترتیب مندرجہ ذیل تیرہ مضامین کاترجمہ کیاہے

1 مقصد حیات
2 تصوف اورمنطق
3 مسموم تصورات اورجذبات
4 احتساب ذات 1967
5فکری تنگ نظری کاعلاج
6 نفسیات اور سیاست
7 سائنس اورثقافت کی جنگ
8 نابغہ کہلانےکانسخہ
9 تہذیب کاارتقاء مختصرتاریخ
10 انسانی خواہشات کی سیاسی افادیت
11 ایٹمی ہتھیاراورعالمگیرناپیدگی کاخوف
12 دورتشکیک اوردانشورکی ذمہ داریاں
13 مزاحمت فروخت

یہ کل تیرہ مضامین ہے جس کاانتخاب مترجم کےذوق کی مرہون منت ہے ، ابتدائیہ ،تعارف،اور، رسل، کی فکری قلابازیوں کی طویل داستان مترجم کی خانہ زادہیں، لیکن رسل کے بعض مندرجہ مضامین انکی فکرکااعلی شاہکارہیں ، مقصد حیات کی تشریح پھراسےواقعیت کے پیرہن میں ڈھالنا ، محبت کےعالمگیرجذبہ سےاس کارشتہ استوارکرنا، پیکرفن کی اپنی ہی جولانگاہ ہے، تصوف ومنطق کی بحث میں اسکےافادیتی پہلوپر خوب واضح اندازمیں بحث کی ہے، فلسفےکی ساری فکروں پرتیشہ زنی کی، سوائےصوفی فلسفہ کے، لیکن وہاں بھی انصاف کےدامن سےپہلوتہی نہیں برتی ، بلکہ اپنےخدشات وتحفظات کواہل علم کی بابصیرت نگاہ کےسامنےسینہ سپر کردیا، بایں ہمہ کچھ بنیادی نوعیت کےحامل سوال کوان الفاظ میں اٹھایا، اس طرح صوفی فلسفہ کی جانچ پڑتال کیلیےچار بنیادی سوالات سامنےآتے ہیں

کیاعلم حاصل کرنےکےدوذرائع ہیں عقل اوروجدان ؟ اوراگرہاں تو ان دونوں میں سے کس کوفوقیت دی جاسکتی ہے ؟

کیاکثرت اورتقسیم فریب ہے ؟جیساکہ وحدۃ الوجود کےنظریہ سےمحسوس ہوتاہے

کیاوقت غیرحقیقی ہے ؟

خیراور شرکی حقیقت کیاہے؟

ان میں سےبعض مسائل کارسل نےخود ہی جواب دیاہے اوربعض ہنوزجواب کامنتظرہے، جسےرسل نےتشنہ چھوڑاہے، ہرمکتبۂ فکرسے قطع نظر کہ ہرایک نےاپنےنظریات کےدفاع میں بعض حسی اورعقلی دلیلیں وضع کررکھی ہے ، مسموم تصورات وجذبات ، کےذیل میں مصائب کی تفصیل اوراختیاری وفطری کی تقسیم کی ہے، اور پھرآج کےدورکےلحاظ سےہمیں بتایا کہ آج سارے مصائب انسانوں کےاپنے ہاتھوں کے کرتوت کا نتیجہ ہے خواہ وہ جنگ کےعنوان سے پھیلی بدامنی ہو یاامن کےنام پرچھائی سیاسی بدعنوانی ہو، جسکے نتیجےمیں آج تک بنی نوع انسان بھوک اورغربت کےسائے تلےاپنےوقت کوکاٹ رہاہے، اوروہ اس پر مجبور ہے چند زمینی آقاؤوں کی وجہ سے ،1967 ، کےعنوان سے ایک غیرمطبوعہ مضمون جواسکی حیات کےبعد اس کی پچیسویں برسی پر شائع کیاگیاتھا ، احتساب ذات ، کاعنوان اس پر بعد میں چسپاں کیاگیاہے ، اور’’رسل‘‘ کاسب سےآخری مضمون یہی تھا فکری تنگ نظری کےعنوان سےرسل نےہرطرح کے تعصبات کی یک قلم نفی کی ہے، اس کی جگہ پر اس نے انسانیت پرزوردیاجسکےلئےبعد میں اس نےاپنی حیات فانی کووقف کردیاتھا ، اور اسکےباہمی امن کی مساعی اورانسانیت نواز تقریروں اورتحریروں کےاعتراف میں 1950ء کواسے نوبل انعام سےنوازاگیاتھا ، نفسیات اورسیاست میں نفسیات کے حوالےسےکئی ایک پیشینگوئی اس نےکی ،جوپوری طرح توصادق نہ آئی ، لیکن خدشات اورتحفظات کےدرجہ میں وہ حق بجانب تھا، آج نفسیات کادوردورہ وشہرہ تونہیں ہے لیکن شکوک کے بادل چھٹ چکےہیں اورنفسیات بھی دگرعلوم کےبالمقابل معاشرہ میں ایک عمدہ درجہ کی حامل ہے سائینس اورثقافت میں فلسفہ اورسائینس کی عمدہ تعبیروتشریح کی ہے مثالوں سے اسے واضح کیا ہیکہ نظریات کےحق میں جب تک مادی دلائل نہ فراہم ہوجائےوہ فلسفہ ہے، اور اسی نظریہ کوجب مادی دلائل سے لیس کردیاجائے تووہ سائینس بن جاتی ہے جیسے، نظریہ ارتقاء ، کوفلسفیوں نےبہت پہلےپیش کیالیکن ڈارون نےاسے مادی دلائل سے مبرہن کردیا، اب، ڈارون کی تھیوری سائینس بن چکی ہے ، پھرسائینس اورفلسفہ کےحدوداربعہ کومتعین کیا، اور دونوں جہت کےانتہاء پسندانہ نقطئہ نظر کورد کیا، نابغہ کہلانے کانسخہ یہ دراصل رسل نےاس وقت لکھاجب، ڈی ایچ لارنس، سے اختلاف ہوا لیکن فرد سےقطع نظرجدید مفکرین کےخشک فکری سوتوں کااس نےواقعی پتا بتایا ہے، اورانکےعلمی افلاس پرماتم بھی کیاہے، فحش اوربازاری زبان کواسکی کل جمع پونجی قرار دیاہے ، تہذیب کےارتقاء میں تاریخی پس منظر کےناحیہ سےنوبت بنوبت عہد بہ عہد تاریخ کی ادنی سی جھلک اپنےقارئین کےسامنے پیش کی ہے، انسانی خواہشات کی سیاسی افادیت میں مارکس اور فرائڈ کی تھیوری سےالگ ایک جداگانہ شاہراہ نکالی ہے اورتمام انسانی اعمال کا قبلہ وکعبہ، غلبہ وطاقت کی خواہش، کوماناہے اوراپنےپیشروں مارکس کے، بیگانگی ذات ، ومعیشت ، اورفرائڈ کے، جذباتی عوامل، کوانسانی اعمال کامحرک ماننےسے انکارکردیاہے ، ایٹمی ہتھیاراورعالمگیر ناپیدگی کاخوف ، یہ مضمون اس وقت لکھا گیا جب جنگ عظیم ثانی جاری تھی اورساتھ ساتھ مبصرین کی پیشینگوئی بھی ، لیکن رسل نے قبل ازوقت کسی بھی پیشینگوئی سے اپنےدامن کو بچاتےہوئے کائنات کش ہتھیاروں سے نفرت دلائی ، اور پوری انسانیت کے امن کی پرزوروکالت کرتےہوےیہ کہا، جیت کسی بھی فریق کی ہوشکست بہرصورت انسانیت کی ہوگی ، اور ساتھ ساتھ یہ مطالبہ بھی لوگوں کےسامنےرکھاکہ انسانیت کی بقاء کیلیے اورانسانیت دشمن عناصرپرنکیل کسنےکیلیے ایک ’’عالمی بلاک ‘‘ اور’’عالمی حکومت‘‘ کی تشکیل وقت کااہم فریضہ ہے، دورتشکیک اوردانشور کی ذمہ داری کےعنوان سےلکھےگئےمضمون میں لوگوں کو ’’چارعہد‘‘ میں تقسیم کیا، پہلاعہد جب ہرایک شخص جاننےکےواہمےمیں مبتلاتھا دوسراعہد ہرایک شخص معرفت وعلم کاانکاری تھا ،تیسراعہد جب جب چالاک لوگوں نےبیوقوفوں سےکہا تھا ہم جانتےہیں تم نہیں جانتےہو، اوریوں کم علموں کی احساس کمتری نے ایک مخصوص طبقہ کی علم ودانش پر اجارہ داری قائم کرادی تھی اور چوتھاعہد یہ ہیکہ جسمیں جاننےوالےانکاری ہے جبکہ کم علم لوگ ہمچوں دیگرےنیست کاجھنڈا اٹھائے پھر رہے ہیں، پہلا دوراستحکام ، دوسراتنزلی اور تیسرا ترقی کا دورتھا جبکہ چوتھا دور ہلاکت وبربادی کاہے کتاب کاآخری مضمون اقتصادیت سےمتعلق ہے اور ’’مزاحمت فروخت‘‘ کےعنوان سےمعنون ہے اس میں سماج کی غلط روی اورآمدنی وخرچہ کی یکسانیت کے پہلو کو نہایت عمدہ پیرائےمیں بیان کیاہے کہ پہلےلوگ ضرورت کی وجہ سےخریدتےتھے، اب بغیرضرورت کےشوقیہ چیزوں کوخریدتےہیں، اورفروخت کرنےوالا اس انداز سےصارف کو خریدنے پرآمادہ کرتا ہےکہ اس کی تمثیل بازاری عورتوں سےکچھ کم نہیں ہے، اسےبھی کچھ حیاء آتی ہے اپنی تشہیر میں ، لیکن ایک تاجر اخلاقیات کی ساری حدوں کوپار کرتےہوے ہرطریقہ سےاپنےسامان کی فروختگی کاخواہاں ہوتاہے جب بازارکا آدھا اثاثہ غیرضرورت مندوں پرتقسیم ہوگیا تو نرخ کا گراں ہونا فطری بات ہے۔

میرے دل کی تختی پر جو عبارتیں نقش ہو گئیں بس میں نے  وہ اتار دیا، اب ارباب ذوق فیصلہ کریں گے کہ اس کی دلکشی کتنی خواب وسراب ہے اوراس کی خشکی کتنی اکتاہٹ کاباعث ہے۔

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare