مدارس اسلامیہ کو درپیش چیلنجز : حفاظتی تدابیر پر قبل از وقت غور و فکر کی ضرورت

موجودہ وقت میں مدارس اسلامیہ خطرات کے گھیرے میں ہیں ، ان کے تحفظ کے لئے ذمہ داران مدارس وقت سے پہلے غور و فکر کریں

میرا مطالعہ

( مولانا ڈاکٹر ) ابوالکلام قاسمی شمسی

ہندوستان کا آئین اقلیتوں کو مذہبی آزادی کے ساتھ مذہبی اداروں کے قائم کرنے کی آزادی فراہم کرتا ہے ، چنانچہ ملک میں بسنے والے تمام اقلیت کے لوگوں نے اپنے بچوں کی مذہبی تعلیم کے لئے ادارے قائم کئے ہیں ، ایسے ادارے مختلف ناموں سے موسوم کئے جائے ہیں ، بودھ کے مذہبی ادارہ کو گروکل اور مسلمانوں نے مذہبی ادارہ کو مدارس کہتے ہیں ، یہ سبھی ملک کے آئین کے مطابق چلتے ہیں ، اور تمام مذاہب کے لوگ اپنے اپنے ادارے کو اپنے وسائل اور اخراجات سے چلاتے رہے ہیں اور ابھی بھی چلارہے ہیں ، ابتدائی دور میں ان اداروں میں صرف مذہبی تعلیم دی جاتی تھی ،مگر بعد میں ضرورت کے مطابق عصری مضامین ان کے نصاب میں شامل کئے گئے ، موجودہ وقت میں مذکورہ تمام اداروں میں ابتدائی درجات میں دینی اور عصری مضامین پر مشتمل نصاب تعلیم جاری ہے ، مدارس میں بھی صرف مذہبی تعلیم نہیں دی جاتی بلکہ ان میں بھی ابتدائی درجات میں عصری مضامین یعنی ہندی ، انگریزی ،حساب ، سائنس وغیرہ کی تعلیم دی جاتی ہے ،

مدارس اسلامیہ کو درپیش چیلنجز : حفاظتی تدابیر پر قبل از وقت غور و فکر کی ضرورت
مدارس اسلامیہ کو درپیش چیلنجز : حفاظتی تدابیر پر قبل از وقت غور و فکر کی ضرورت

مدارس کا رشتہ مسلم سماج سے بہت مضبوط ہے ، اس سماج میں غربت بہت زیادہ ہے ، یہ مدارس بالخصوص غریب طلبہ و طالبات کے لئے فری تعلیم ، رہائش کا انتظام کرتے ہیں اور پوری کفالت کرتے ہیں ، اس طرح غریب طبقے کے بچوں کو تعلیم و تربیت سے آراستہ کر کے انہیں ایک اچھا شہری بناتے ہیں ، اس طرح تعلیم کو عام کرنے میں یہ حکومت کی مدد کرتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں ملک کی حکومت نے ان مدارس کے فروغ کے لئے حوصلہ افزائی کی ، چنانچہ آج ملک میں بے شمار چھوٹے اور بڑے مدارس قائم ہیں ، بہت سے مدارس پر کو مسلم سماج کے لوگ اپنے وسائل اور اخراجات سے بھی چلارہے ہیں ، اور بہت سے مدارس ایسے ہی۔جن کو چلانے کے لیے حکومت کی جانب سے گرانٹ بھی دیئے جاتے ہیں ، بعض اسٹیٹ میں حکومت نے مدارس کے لئے مدرسہ بورڈ قائم کئے ہیں ، اس سے بہت سے مدارس ملحق ہیں ،

ہمارے ملک ہندوستان میں تعلیم کے سلسلہ میں حکومت کی جانب سے دو قوانین نافذ کئے گئے ، ان میں سے ایک رائٹ ٹو ایجوکیشن اور دوسرا نئی تعلیمی پالیسی ہے ، رائٹ ٹو ایجوکیشن میں بہت سے دفعات ایسے تھے جو ملک کے آئین میں دیئے گئے مذہبی آزادی سے متصادم تھے ، جن کی وجہ سے مدارس کے ساتھ جملہ مذہبی ادارے زد میں آتے تھے ، چنانچہ تمام مذہبی اقلیتوں نے اس ایکٹ کی مخالفت کی ، پھر بھارت سرکار کے محکمہ تعلیم نے تمام مذہبی اقلیتوں کے مذہبی اداروں کو اس سے مستثنیٰ قرار دے دیا ، اس طرح مدارس بھی اس سے مستثنیٰ قرار دیئے گئے ، مدارس رائٹ ٹو ایجوکیشن سے مستثنیٰ ہیں ، اسی لئے نئی تعلیمی پالیسی میں بھی مدارس سمیت کسی مذہبی ادارے کے سلسلہ میں کوئی تذکرہ نہیں ہے ، چونکہ مدارس رائٹ ٹو ایجوکیشن اور نئی تعلیمی پالیسی سے مستثنیٰ ہیں ، جس کی وجہ سے بعض اسٹیٹ کی حکومت کو مدارس کے خلاف سازش کا کوئی راستہ نہیں نکل رہا تھا ، اس لئے اس نے تحفظ حقوقِ اطفال ایکٹ کا سہارا لیا ہے ، اور اس ایکٹ کے دفعات کے تحت مدارس کی جانچ کا سلسلہ شروع کیا ہے ، اور مدارس کے خلاف کاروائی جاری ہے ، کئی اسٹیٹ میں بہت سے مدارس غیر قانونی قرار دیئے گئے ہیں اور بند کردئیے گئے ہیں ، خبر کے مطابق یہ مدارس رجسٹرڈ نہیں ہیں ، اس لئے غیر قانونی قرار دیئے گئے ہیں ، جبکہ یہ مدارس آئین کے مطابق ہیں ، آئین کے مطابق ہونے کو غیر قانونی کہنا صحیح نہیں ہے

موجودہ وقت میں ملک میں دو طرح کے مدارس چل رہے ہیں ، ایک وہ ہیں جو کسی سرکاری مدرسہ بورڈ سے ملحق ہیں ، سرکاری مراعات لیتے ہیں اور ان میں مدرسہ بورڈ کا نصاب تعلیم چلتا ہے ، جس میں دینی اور عصری دونوں مضامین شامل ہیں ، ان کی سرٹیفکیٹ وغیرہ حکومت سے منظور ہے ، دوسرے وہ مدارس ہیں ،جو آزاد ہیں ، کسی سرکاری بورڈ سے ملحق نہیں ہیں ، نہ سرکاری فنڈ لیتے ہیں ، ایسے مدارس کو کمیٹی اپنے فنڈ سے چلاتی ہے ، ایسے مدارس میں ان کا اپنا مرتب کردہ نصاب چلتا ہے ، ایسے مدارس کی سند حکومت سے منظور نہیں ہے

موجودہ وقت میں مدارس ملحقہ اور آزاد مدارس دونوں ہی حکومت کے نشانے پر ہیں ، اس لئے ذمہ داران مدارس کو چاہئے کہ وہ قبل از وقت مدارس کی کمیوں کو دور کریں اور مدارس کو بہتر سے بہتر بنانے کی جانب توجہ دیں ، اس سلسلہ میں چند ضروری باتیں تحریر ہیں

جہانتک مدارس ملحقہ کی بات ہے تو مدارس ملحقہ میں معیاری تعلیم کی ضرورت ہے ، طلبہ و طالبات کی تعداد اور حاضری پر توجہ دی جائے ، مدارس میں تعلیمی نظام کو مضبوط کیا جائے ، کلاس وائز طلبہ کی تعلیم کا انتظام کیا جائے ، اگر ہاسٹل ہے تو ہاسٹل کے نظام کو بہتر کیا جائے ، احاطہ کے صاف صفائی پر دھیان دیا جائے ، چونکہ یہ بورڈ سے ملحق ہیں ، نصاب مدرسہ بورڈ کا چلتا ہے ، اس لئے یہ نصاب سرکاری معیار کے مطابق ہے ، ایسے مدارس میں نصاب تعلیم کا کوئی معاملہ نہیں ہے ، خلاصہ یہ کہ مدارس ملحقہ میں بھی جہاں جہاں کمی نظر آئے ، اس کو قبل از وقت درست کرلیا جائے

جہانتک آزاد مدارس کی بات ہے تو یہ ملک کے آئین کے دفعات کے مطابق ہیں ، اس لئے کبھی رجسٹریشن کی شرط نہیں پڑی ، مگر موجودہ وقت میں بعض اسٹیٹ میں غیر رجسٹرڈ کو غیر قانونی قرار دے کر مدارس بند کئے جارہے جو صحیح نہیں ہے ، اس لئے شر سے بچنے کے لیے ان کا رجسٹریشن کرا لیا جائے، تو بہتر ہے ، خواہ سوسائٹی رجسٹریشن کے ذریعہ ہو یا ٹرسٹ ڈیڈ کے ذریعہ ، تاکہ ضرورت کے وقت اطلاع فراہم کرنے میں آسانی ہو ، نیز حقوقِ اطفال ایکٹ کے مطابق ان میں ضروری اصلاح کی جائے ، معیاری تعلیم کا انتظام کیا جائے ، حکومت چاہتی ہے کہ اسکول سطح تک طلبہ کو ایسی تعلیم دی جائے ، جس سے اس کی ہمہ جہت ترقی ہو ، اس میں عصری علوم بھی شامل ہوں ، اس لئے آزاد مدارس کے تحفظ کے لیے ضروری ہے کہ اسکول کی سطح یعنی انٹر تک نصاب تعلیم میں دینی مضامین کے ساتھ عصری مضامین بھی شامل کئے جائیں اور طلبہ کو امتحان کے مواقع فراہم کئے جائے ، اس کے لئے مدارس کی درجہ بندی کی جائے ، کچھ مدارس ابتدائی 8/ درجات تک ہو ، کچھ 12/ درجات تک ہوں اور کچھ اعلی تعلیم کے لئے ہوں ، آزاد مدارس میں ابتدائی درجات کے لئے 5/ سال مقرر ہیں ، اس میں 3/ سال کا اضافہ کر کے 8/ سال کردیا جائے ، عربی اول اور دوم میں عصری مضامین کو شامل کر کے میٹرک اور عربی سوم اور چہارم میں عصری علوم کو شامل کر کے انٹر کردیا جائے ، تو آسانی سے کا چل جائے گا ، اسکول سطح تک اوپین اسکول سسٹم سے امتحانات کا انتظام کردیا جائے ، پھر عربی پنجم سے عربی ہشتم تک حسب سابق رہے ،تو مدارس کے بہت حد تک سرکاری مداخلت سے محفوظ ہونے کی تو قع کی جا سکتی ہے ، خبر کے مطابق دارالعلوم ندوۃ العلماء کے اپنے نیچے کے درجات میں اس کا انتظام کیا ہے ، اسی کو دیگر مدارس کے ذمہ داران کو بھی اختیار کرنا چاہئے ، مدارس کے احاطہ میں صاف صفائی کا مکمل انتظام کیا جائے ، ہاسٹل اور درسگاہ کو الگ الگ رکھا جائے ، ہاسٹل کا انتظام بہتر کیا جائے ، مطبخ وغیرہ کو صاف ستھرا رکھا جائے ، لیٹرین وغیرہ کی صفائی پر پوری توجہ دی جائے ، مدارس کے حساب و کتاب کو صاف اور ضابطہ کے مطابق رکھا جائے ، اس کا سالانہ آڈٹ کرایا جائے ، خلاصہ یہ کہ آزاد مدارس کے ذمہ داران قبل از وقت اپنے مدارس کی جانب خصوصی توجہ دیں ، تاکہ مدارس خطرات سے محفوظ رہیں ،

موجودہ وقت میں دینی مراکز پر بہت سے خطرات منڈلا رہے ہیں ، اس کے لئے حسب سابق ملی تنظیموں کے قائدین مدارس ، مساجد اور دینی مراکز کے ذمہ داروں کے ساتھ مل کر لائحہ عمل اور حکمت عملی طے کریں ، ہر سطح پر ان کی رہنمائی کی جائے ، حسب ضرورت قانونی چارہ جوئی کی جائے ، اللہ تعالیٰ مدارس کی حفاظت فرمائے

یہ بھی پڑھیں

Leave a Reply

FacebookWhatsAppShare