پندرہویں صدی ہجری کے اعلام بہار شریف و عظیم آباد (سابق ضلع پٹنہ)
( قسط دہم. آخری قسط )
طلحہ نعمت ندوی
متین عمادی
پورا نام سید متین الحق ولد سید صبیح الحق عمادی تھا،۲۸ فروری ۱۹۴۲ کو خانقاہ عمادیہ منگل تالاب میں ان کی ولادت ہوئی ،ابتدائی تعلیم پھردینیات کی تعلیم اپنے خاندانی بزرگوں سے حاصل کی ،پھر محمڈن اینگلو عربک اسکول سے ہائی اسکول کا امتحان دیا ،اور تعلیمی مراحل طے کرتے ہوئے مگدھ یونیورسٹی سے اردو اورفارسی میں ایم اے کی سند امتیازی نمبرات سے حاصل کی ،پھر کچھ دنوں محمڈن اینگلو عربک اسکول میں تدریسی خدمت انجام دینے لگے اور طویل مدت تک طلبہ کو مستفید کرکے ۲۰۰۲ میں ملازمت سے سبکدوش ہوئے ۔وہ شاعری اور نثر نگاری دونوں میں ممتاز ہیں ،اور عظیم آباد میں کئی ادبی انجمنوں کے ذمہ دار رہے اور یہاں ہر جگہ فعال رہے،ا ن کے کئی شعری مجموعے شائع ہوچکے ہیں ۔۲۷ جولائی ۲۰۲۰ مطابق ۶ ذی الحجہ ۱۴۴۱ھ کو پٹنہ ہی میں وفات پائی۔ (بہار کی بہار ،ص۲۱۸،وتہ خاک مرتبہ شاہ حسین احمد درگاہ شاہ ارزاں پٹنہ)

نقی احمد ارشاد
نقی احمد کا پورا نام سید نقی احمد بن سید حسین خاں تھا ،یہ شاد عظیم آبادی کے پوتے تھے ،۵جولائی ۱۹۲۰ کو اپنے آبائی گھر پٹنہ سیٹی میں پیدا ہوئے ،۱۹۳۶ میں پٹنہ سیٹی ہائی اسکول سے میٹرک پاس کیا ،اس کے بعد وہ حکومت بہار میں ڈپٹی کلکٹر ہوگئے ،پھر مزید ترقی کرتے رہے اور ڈی ایم اور اس کے بعد محکمہ امداد باہمی کے جوائنٹ سکریٹری بنائے گئے ،ملازمت سے سبکدوشی کے پٹنہ ہی میں مقیم ہوگئے اور علمی اور تصنیفی خدمت میں مشغول رہے اور ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیتے رہے ،ان کی کئی ادبی وتاریخی تصانیف ان کے علمی مقام ومرتبہ کے اظہار کے لئے کافی ہیں ۔اسی شہر میں ۴مارچ ۲۰۰۸ مطابق ۲۶ صفر ۱۴۲۹ھ کو ان کا انتقال ہوا ،اور افضل پور قبرستان میں دفن ہوئے ۔دسیوں اہم تصانیف یادگار ہیں۔(دیکھئے بہار کی بہار ،ص ۲۲۶)
ہوش عظیم آبادی
ہوش عظیم آبادی کا پورا نام سید ارتضیٰ حسین اور والد کا نام نواب سید وارث حسین ہے ،۵جنوری ۱۹۲۱ کو میتن گھاٹ پٹنہ میں پیدا ہوئے ،شعر واب سے موروثی تعلق تھا ،چنانچہ باضابطہ تعلیم کا پتہ نہیں چلتا ،البتہ اخیر تک ادبی سرگرمیاں جاری رکھیں ،ان کا گھر ادباء کا مجمع تھا ،حکومت بہار کے محکمہ اطلاعات میں اردو مترجم رہے ،اور ترقی کرتے ہوئے اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے عہدہ تک پہنچے ،اس محکمہ کے اردو رسالہ بہار کی خبریں کے مدیر بھی رہے ۔۲۰اگست ۱۹۸۲ مطابق۱اگست ۱۴۰۲ھ میں وفات پائی اور مغل پورہ پٹنہ سیٹی میں دفن ہوئے۔ممتاز شاعر بھی تھے(بہار کی بہار ،ص ۲۳۶)
مناظر عاشق ہرگانوی
مناظر حسن عاشق مشہور اہل قلم ہیں ،ان کے والد کانام عبدالسلام صدیقی اور آبائی وطن ہرگاواں (تحصیل استھاواں)ضلع نالندہ تھا ،یکم جولائی ۱۹۴۸ کو چتر ا ضلع ہزاری باغ میں پیدا ئش ہوئی ،پھر وطن آگئے اورقریب میں بربیگہ اسکول میں تعلیم کا آغاز کیا ،بہاشریف سے ہائی اسکول کا امتحان دیا ،انٹرمیڈیٹ کے بعد بھاگلپور چلے گئے اور بھوگلپوریونیورسٹی سے بی اے اور ایم اے کی سند حاصل کی ،وہیں سے پی ایچ ڈی کی ،اور پھر وہیں استاد ہوگئے ،پٹنہ یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کی سند بھی حاصل کی ۔انہوں نے نثر وشاعری میں بڑاذخیرہ چھوڑا ،اور ہندوستان کی ادبی دنیا میں بڑے نامور ہوئے ، ۷اپریل ۲۰۲۱مطابق ۲۵شعبان ۱۴۴۲ھ کو وفات پائی ،تفصیلی حالات کے لئے دیکھئے مناظر عاشق ہرگانوی شخصیت از پروفیسر فردوس رومی،عرشی پبلی کیشن انڈیا،دہلی۔
تسنیم بلخی
تسنیم بلخی ولد سلطان بلخی ،بہارشریف کے قدیم بلخی خاندان سے تعلق تھا ،یہیں پرورش بھی ہوئی اور اردو میں نالندہ کالج سے گریجویشن اور ایم اے بھی کیا اس کے بعد مگدھ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ،پھر علامہ اقبال کالج بہارشریف میں اردور کے استاد ہوگئے اور ایک مدت کی تدریس کے بعد یہیں سے سبکدوش ہوئے ،دسمبر ۲۰۱۷ ربیع الاول ۱۴۳۹ھ میں وفات پائی اورگنگن دیوان قبرستان بہارشریف میں دفن ہوئے ،چند مضامین بھی یادگار ہیں ۔
عطاکاکوی
عطاکاکوی کا پورا نام سید عطاء الرحمن اور والد کا نام غفورالرحمن تھا،کاکو ضلع جہان آباد میں ۱۷ستمبر۱۹۰۴ مطابق ۶رجب ۱۳۲۲ھ میں ولادت ہوئی،گیاکے ایک اسکول سےمیٹرک کی تعلیم مکمل کرکے پٹنہ کالج میں داخلہ لیا ،اور یہیں تعلیم مکمل کی، سے فارسی پھر اردو میں ایم اے کی سند حاصل کی ،اس کے بعد وہ اسلاپور خانقاہ کے ہائی اسکول میں استاد پھرہیڈ ماسٹر ہوئے، اس کے بعد لنگٹ سنکھ کالج مظفر پور میں اردو فارسی کے استاد مقرر ہوئے ،پھر پٹنہ یونیورسٹی میں فارسی شعبہ کے استاد اور بعد میں صدر ہوئے ،اس دوران ادارہ تحقیقات عربی وفارسی پٹنہ کے ڈائریکٹر بھی ہوئے ،یہاں پانچ سال کی خدمت انجام دے کر سبکدوش ہوئے،انہوں نے تحقیق ،تصنیف ،اور تدوین کا بہت ہی اہم کام کیا اور بہت معیاری علمی ذخیرہ چھوڑا ،کئی قدیم فارسی متون کی تحقیق ،وترجمہ اوراردو کتابوں کی تصنیف ان کے قلم کی مرہون منت ہے ،۱۸مارچ ۱۹۹۸مطابق ۱۸ ذی قعدہ ۱۴۱۸ھ کو پٹنہ ہی میں وفات پائی ۔(مزید حالات اور خدمات کی تفصیل کے لئے دیکھئے ،عظیم آباد کے فارسی اساتذہ از رضوان اللہ آروی،نیز کلام عطا کاکوی ،پٹنہ)
علقمہ شبلی
علقمہ شبلی کا پورا نام ابوعلقمہ محمدشبلی نعمانی تھا،اور والد کانام مولانا عبدالجبارانصاری ،میرغیاث چک (تحصیل استھاواں)وطن تھا ،جہاں ۳۰نومبر۱۹۳۰ کوولادت ہوئی ،مکمل تعلیم دربھنگہ میں ہوئی ،مسلم اسکول لہریاسرائے دربھنگہ ،اور اس کے بعد سی ایم کالج دربھنگہ سے بی کام کی سند حاصل کی ،اس کے بعد کلکتہ چلے گئے جہاں ایک اسکول میں استاد ہوئے پھر مدرسہ عالیہ سے وابستہ ہوگئے اور اسی سے سبکدوش ہوئے ،بعد میں مسلم یونیورسٹی سے فارسی میں ایم اے کی سند کی بھی حاصل کی اور کلکتہ یونیورسٹی سے بی ٹی بھی کیا ۔انہوں نے اردوشاعری کا گراں قدر ذخیرہ چھوڑا اور کلکتہ کی ادبی فضاکو ایک مدت تک معمور رکھا ،۱۳اگست۲۰۱۹مطابق ۱۲ذی الحجہ ۱۴۴۰ھ کو کلکتہ ہی میں وفات پائی۔(دیکھئے علقمہ شبلی خوابوں کا صورت گر،از راشد انورراشد،کلکتہ)
اقبال حسین
اقبال حسین بن احمد حسین مشہور فاضل ومصنف تھے،۲۲نومبر ۱۹۰۵ کو نیورہ ضلع پٹنہ میں ولادت ہوئی ،والد کی ملازمت مختلف جگہوں پر تبدیل ہوتی رہی اس لئے تعلیم بھی مختلف مقاما ت پر ہوئی ،پھر پٹنہ یونیورسٹی سے گریجویشن اور ایم اے کی تعلیم مکمل ،اور فارسی میں ایم اے کی سند حاصل کی ،پھر یہیں سے پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھ کر اس کی سند حاصل کی ،اس کے بعد راونشا کالج کٹک میں استاد ہوئے ،پھر جلدہی پٹنہ کالج منتقل ہوگئے اور یہاں ترقی کرتے ہوئے فارسی کے صدر شعبہ ہوئے ،پھر پٹنہ کالج کے پرنسپل بھی ہوئے ،اس کے علاوہ بھی وہ پٹنہ میں سرگرم رہے ،انگریزی اور اردو اور فارسی میں اہم تصانیف ان کی یادگار ہیں ،ایک فارسی متن تحفہ سامی کی تدوین ان کا اہم کام ہے ،۱۵فروری ۱۹۹۱مطابق ۱شعبان ۱۴۱۱ھ کو پٹنہ ہی میں ان کا انتقال ہوا۔(مزید حالات کے لئے دیکھئے ان کی خودنوشت داستاں میری اور عظیم آباد کے فارسی اساتذہ از رضوان اللہ آروی)
پروفیسر فیاض الدین حیدر
فیاض الدین حیدر ولد نصیر الدین حیدر ۴دسمبر ۱۹۲۴ کو پٹنہ میں پیدا ہوئے ،محمڈن اینگلو عربک اسکول پٹنہ سیٹی سے میٹرک کا امتحان پاس کیا ،پھرپٹنہ یونیورسٹی سے گریجویشن کیا ،پھر فارسی میں ایم اے کی تعلیم مکمل کی ،پھر ایران گئے اور چند سال قیام کرکے جدید فارسی کا مطالعہ کیا ،اور ڈپلوما کی سند حاصل کی ،اس سے قبل وہ کچھ دن مظفرپور اور چھپرہ کے کالجوں میں استاد رہے ،پھر پٹنہ یونیورسٹی کے استاد ہوئے ،اور صدر شعبہ بھی ،اور بھی متعدد عہدوں پر رہے ،پھر ادارہ تحقیقات عربی وفارسی کے ذمہ دار ہوئے اور اسی عہدہ سے ملازمت سے سبکدوش ہوئے ۔انہوں نے انگریزی میں فارسی متون کے ترجمے بھی کئے اور اس فن پر کتابیں بھی لکھیں ،تینوں زبانوں میں ان کی باقیات ہیں ۔۸مئی ۲۰۰۳مطابق ۸ربیع الاول ۱۴۲۴ھ کو ان کا انتقال ہوا۔(مزید دیکھئے ،عظیم آباد کے فارسی اساتذہ )
نسیم احمد
نسیم احمد ولد کفایت حسین ،تلہاڑا آبائی وطن تھا ،پٹنہ میں اپنے بڑے بھائی کلیم عاجز کے ساتھ بچپن سے جوانی کے ایام گذارے ،ثانوی درجات تک کی تعلیم وہیں حاصل کی ،پھرانہیں کے ساتھ تجارت میں مشغول رہے ،پھر بہارشریف منتقل ہوگئے جہاں ان کی سسرال تھی،بڑے وضع دار اور دیندار آدمی تھے ،ان کے مضامین بھی شائع ہوتے رہے،جماعت اسلامی سے تعلق تھا ،نسیمے از بہار ا ن کی ایک کتاب ہے جس میں اپنے خاندان کے حالات ذکر کئے ہیں۔۹ستمبر ۲۰۱۸ مطابق ۲۹ ذی الحجہ ۱۴۳۹ھ میں انتقال ہوا ۔
یونس ہرگانوی
یونس بن سلیمان ممتاز صحافی تھے ،ہرگاواں(استھاواں) وطن تھا ،مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ میں تعلیم مکمل کی ،پھر بی این کالج پٹنہ میں اردوفارسی کے استاد مقرر ہوئے ،اور اسی عہدہ سے ۱۹۹۶ میں سبکدوش ہوئے ۔وہ ممتا ز صحافی بھی تھے اور نظم نگار بھی ،فارسی کی پہلی کتاب اور اشعار کا مجموعہ ان کی یادگار ہے۔۱۲جون ۲۰۰۶مطابق ۱۶جمادی الاول ۱۴۲۷ھ کو پٹنہ میں ان کا انتقال ہوا ۔(مزید حالات کے لئے دیکھئے ،زبان وادب پٹنہ ،جون ۲۰۲۴)
پروفیسر خواجہ امین
خواجہ محمد امین ولد خواجہ محی الدین کا وطن رمضان پور تھا ،چکدی ہائی اسکول سے میٹرک پاس کیا ،پھر دیگر یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کی ،اور مظفرپور یونیورسٹی سے تعلیم مکمل کی ،اور پھر وہیں اردو کے پروفیسر ہوگئے ،اور طویل مدت تک یہاں تدریسی خدمت کے بعد سبکدوش ہوئے اور چند ہی کے ماہ کے بعد اسی سال یعنی ۹ستمبر ۲۰۰۵ء مطابق ۵شعبان ۱۴۲۶ھ کو وفات پائی۔
منظر حسن دسنوی
سید منظر حسن بن سید آل حسن مشہور شاعر تھے ،دسنہ آبائی وطن تھا ،لیکن شاید قرابت کی وجہ سے گیلانی میں ایک فروری ۱۹۱۴ کو ولادت ہوئی،پٹنہ کالج میں گریجویشن تک کی تعلیم مکمل کی ،پھر دو سال ٹریننگ کالج میں تعلیم پائی ،پھر بعد میں پٹنہ یونیورسٹی ہی سے ایم اے اردو کی سند حاصل کی ،دربھنگہ ،موتیہاری اور بھاگلپور میں چند سال اسکول میں تعلیم دینے کے بعد وہ راونشاکالج کٹک منتقل ہوگئے اور وہیں طویل مدت گذار کر ملازمت سے سبکدوش ہوئے ۔اور ۲۷ نومبر ۱۹۹۱ مطابق۱۲جمادی الاول ۱۴۱۲ھ کو کٹک ہی میں وفات پائی ۔مزید دیکھئے پروفیسر سید منظر حسن دسنوی حیات اور کارنامے از شیخ سلیمان علی مقالہ اتکل یونیورسٹی ،نیز ان کا شعری مجموعہ یادوں کی دہلیز پر۔
شاہ نعمت امام
شاہ نعمت امام بن مفتی عباس پھلواروی معروف عالم تھے ،۱۳۲۷ھ مطابق ۱۹۰۹ میں ان کی ولادت ہوئی ،تعلیم کے مراحل وطن ہی میں طے کئے ،پھر مدرسہ قدیمیہ فرنگی میں تکمیل کی ،علوم میں دسترس تھی ،کتابوں میں البدورالبازغہ کی شرح یادگار ہے ،اس کے علاوہ درس وتدریس میں پوری زندگی گذاری ،صلاح وتقویٰ میں بھی ممتا زتھے ،۲۷شعبان ۱۴۰۷ھ مطابق ۲۷اپریل ۱۹۸۷ کو وفات پائی اور خاندانی قبرستا ن میں دفن ہوئے۔(مزید دیکھئے ،مشاہیرومعاصرین از مولانا عبداللہ عباس ندوی ،لکھنؤ)
مولانا سید حسن مثنی ندوی
مولانا سید حسن مثنی ندوی بن سید حسن میاں بن حضرت شاہ سلیمان پھلواروی معروف عالم ومصنف تھے،ان کے والد کا انتقال جوانی ہی میں ہوگیا تھا ،اس لئے دادا کی آغوش میں تربیت پائی ،ولادت نانہال کارا(کڑا)ضلع اورنگ آباد میں ۱۹۱۳ء میں ہوئی ،تعلیم کی تکمیل دارالعلوم ندوۃ العلماء میں کی ،تقسیم ہند کے بعد پاکستان گئے اور اپنی علمی خدمات کی وجہ سے بہت معروف ہوئے ،ان کی تصانیف اور علمی کاموں کی بڑی تعداد ہے ،ان کا ماہنامہ مہرنیمروز کراچی بہت مشہور ہے ۔ذی قعدہ ۱۴۱۸ھ مطابق مارچ ۱۹۹۸ کو وفات پائی ۔دیکھئے مشاہیر ومعاصرین از ومولانا عبداللہ عباس ندوی ۔
شاہ نصر احمد پھلواروی ندوی
مولانا شاہ نصر احمد بن شاہ عون احمد معروف عالم تھے ،پھلواری شریف میں ۱۳۷۱ھ مطابق ۱۹۵۲ میں ان کی ولادت ہوئی ،خانقاہ مجیبیہ کے مدرسہ میں تعلیم کی تکمیل کی ،پھر کچھ عرصہ دارالمصنفین میں بحث وتحقیق کا کام کیا ،اس کے بعد دارالعلوم ندوۃ العلماء میں شعبہ ادب میں داخلہ لے کر دو سال میں ادب کی تعلیم حاصل کی ،اس کے بعد خدابخش لائبریری میں ان کا تقرر ہوگیا ،لیکن اسی سال چند ہ کے بعد بالکل عین جوانی میں انہوں نے ۱۳ صفر ۱۴۰۵ھ مطابق ۷نومبر ۱۹۸۴ء کووفات پائی ،ان کی علمی خدمات کے لئے دیکھئے ،حیات نصر از مولانا بدراحمد مجیبی ندوی ۔
مولانا معظم حسین قاسمی
مولانا معظم حسین ممتاز مدرس تھے ،ان کے والد سید حسین کا وطن موڑہ تالاب بہارشریف تھا ،لیکن اگاواں میں آبادہوگئے تھے ،یہیں ان کی ولادت ہوئی ،ابتدائی تعلیم کے بعد دارالعلوم دیوبند میں تکمیل کی پھر کچھ دنوں حیدرآباد اور دیگر جگہوں پر رہے،پھر۱۹۵۵ میں مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ میں استاد کی حیثیت سے تقرری ہوئی ،اور یہیں پوری زندگی گذاری ،سبکدوشی سے تین ماہ قبل ۲۹دسمبر ۱۹۸۷مطابق کو وفات پائی اور شاہ ارزاں قبرستان میں دفن ہوئے۔
عین الحق شاد استھانوی
عین الحق بن انیس الحق کا وطن استھاواں تھا ،معروف شاعر اور کامیاب مدرس تھے ،۱۵مئی ۱۹۴۹کو پیدائش ہوئی ،مدرسہ محمدیہ اور معافی ہائی اسکول میں تعلیم حاصل کی اس کے بعد نالندہ کالج سے گریجویشن کیا ،بی ایڈ بھی کیا ،پھر معافی ہائی اسکول(معافی نزد استھاواں) میں۱۹۶۱ میں استاد مقرر ہوئے،اور ترقی کرتے ہوئے پرنسپل کے عہدہ پر چند سال رہ کرسبکدوش ہوئے،۱۹۹۰ میں استھاواں سے اپنی سسرال اسحاق پورپڈھوکہ جو معافی سے قریب تھا منتقل ہوگئے ۔۳اکتوبر ۲۰۰۹ ،۱۴۳۸ھ میں وفات پائی ۔ان کے اشعار کا قلمی مجموعہ ان کی یادگارہے ۔
مظفر گیلانی
مظفر گیلانی بن سید سلیمان گیلانی پٹنہ کے معروف آدمی تھے۔۱۹۱۸ میں اپنے وطن گیلانی میں پیدا ہوئے ،ابتدائی تعلیم وطن میں حاصل کی ،پھر باڑھ سے میٹرک کیا ،پھرسائنس کالج پٹنہ سے انٹرمیڈیٹ اور پٹنہ کالج سے انگریزی ادب میں بی اے اور ایم اے کیا ،دوران طالب علمی اور اس کے بعد پٹنہ میں بہت فعال اور سرگرم رہے ،کئی اہم سرکاری ادروں کے رکن بھی رہے،بھاگلپور یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہے ،اردو کے شعر وادب سے انگریزی کے مقابلہ میں زیادہ تعلق رہا ،مضامین ومقالات اور افسانے لکھتے رہے ،پھر حکومت بہار کے بہت اہم عہدہ پر فائز ہوئے اور ایک مدت گذار کر ملازمت سے سبکدوش ہوئے،۱۸ فروری ۱۹۹۰ مطابق۲۷ محرم ۱۴۱۱ھ کو وفات پائی اور خانقاہ مجیبیہ کے قبرستان میں دفن ہوئے ۔انہوں نے مولانا گیلانی کے مضامین کا مجموعہ مضامین گیلانی کے نا م سے مرتب کیا تھا جو بہار اردو اکیڈمی سے شائع ہوا ۔ایک کتاب ان شخصی مضامین کا مجموعہ ’’ان سے ملیے ‘‘ ہے۔(مزید حالات اسی کتاب میں ملیں گے۔)